فرعونوں کے محلوں میں کتب خانے؟

 کسی بھی قوم کا اصل سرمایہ، تعلیم اور نسلِ نو کا درست سمت کی جانب متعین سفر ہوا کرتا ہے۔ علم کے موتی، کتابیں جن سے آج ہم کوسوں دور ہیں‘ ہماری لائبریریاں ہزاروں علمی اثاثہ جات اپنے اندر سمائے ویران ہو چکی ہیں۔ ہم سوشل میڈیا کے چنگل میں الجھ کر رہ گئے ہیں ‘ لائبریریاں کوئی آج کی بات نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانی ہیں۔ لائبریریوں کے علم اور آج محض کاغذ کے ایک ٹکڑے ڈگری میں بہت فرق ہے۔

یہ کتب خانے ہی ہیں جو قوموں کے ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ کتب خانے نہ صرف محفوظ شدہ معلومات کی حفاظت کرتے ہیں۔ بلکہ اس کی ترتیب و تنظیم کے ساتھ ساتھ اسے علم کی رسائی کے قابل بھی بناتے ہیں۔ یہ لائبریریاں علم و دانش کے سر چشمے ہیں۔ دمشق میں بیت الحکمة لائبریری کی بنیاد (602-680 عیسوی) میں رکھی گئی جس میں آنیوالے ادوار میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ اس دور میں کتاب کی انڈسٹری کا محور مسجد ہوتی تھی۔ چھوٹی لائبریریاں تمام کی تمام مسجدوں کا حصہ تھیں جن کا مقصد یونانی‘ پہلوی اور سنسکرت لٹریچر سے عربی میں نقول تیار کرنا تھا۔ عالمی سیاح ابن بطوطہ (1368ء) کے بقول دمشق میں کتابوں کا بازار جامع مسجد سے قریب تھا جہاں کتابوں کے علاوہ چمڑہ‘ گتا‘ گوند‘ عمدہ کاغذ‘ قلم اور روشنائیاں فروخت ہوتی تھیں۔

اکثر متمول مسلمان اپنی لائبریریاں مساجد کو وقف کر دیتے تھے۔ مسجد امام ابو حنیفہ کی بغداد میں لا ئبریری کافی بڑی تھی۔ مورخ واقدی (822ء) نے ورثہ میں اتنی کتابیں چھوڑیں جو 600 شیلفوں میں سما سکتی تھیں۔ امام احمد بن حنبل (855ء) کی کتابوں کی تعداد اتنی تھی کہ ان کو لے جانے کیلئے بارہ اونٹوں کی ضرورت تھی۔ اسی طرح علامہ زمخشری نے اپنی ذاتی کتابیں مسجد کو دے دی تھیں۔ ایک سکالر جرودی ذیدی اپنی لائبریری کو دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتا تھا جس کیلئے چھ سو اونٹوں کی ضرورت پڑی اور اس کی قیمت ایک سو دینار تھی۔

انگریزی زبان کا لفظ Library لاطینی زبان کے لفظ Libra سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں چھال یا گودہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع میں کتابیں یا تحریریں پیپرس (Papyrus) نامی درخت کی چھال پر لکھی جاتی تھیں۔ مٹی اور چھال کے استعمال سے پہلے اس مقصد کے لیے پتھر کا بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ چنانچہ تحریروں کے اولین نقوش پتھروں پر ہی ملتے ہیں۔ لوہے‘ تانبے اور کانسی کی ایجاد کے بعد ان چیزوں کو بھی تحریروں کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ ان کو استعمال کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تحریر کو مزید صاف اور خوشنما بنایا جا سکے۔ ابتدا میں جن چیزوں کو کاغذ کی طرح استعمال کیا گیا ان میں کھال بھی شامل تھی‘ البتہ پیپرس (Papyrus) کے استعمال کی مدت بہت طویل ہے۔

کاغذ کی ایجاد جو چین کی رہین منت ہے اس کے بعد ہوئی اور کاغذ کی ایجاد کے ساتھ ہی لکھنے پڑھنے کے ذرائع میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا۔ چھاپہ خانوں کی ابتدا نے اس انقلاب کو مزید ہمہ گیر بنا دیا۔ لکھنے پڑھنے کی ابتدا چونکہ سب سے پہلے ایشیائے کوچک‘ مصر اور چین میں ہوئی تھی، اس لیے سب سے پہلے کتب خانوں کی بنیاد بھی یہیں پڑی۔ قدیم نینوا کے کھنڈرات سے ایک کتب خانہ برآمد ہوا ہے جو 700 قبل مسیح کا ہے۔ اس کتب خانہ کی تقریباً 22 ہزار مٹی کی تختیاں برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں۔ چوتھی صدی قبل مسیح کے ایتھنز میں ایک بڑا کتب خانہ موجود تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے یونانی مندروں میں بھی کتب خانوں کے موجود ہونے کے سراغ ملتے ہیں۔ ارسطو اور افلاطون کے ذاتی کتب خانے مشہور ہیں مگر ان سے بھی قبل تقریباً دو ہزار قبل مسیح میں مصر کے فرعونوں کے محلوں میں کتب خانوں کی موجودگی کے شواہد مسترد نہیں کیے جا سکتے۔

بابل کے کتب خانوں میں موجود مٹی کی تختیاں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ 323 قبل مسیح میں اسکندریہ کے مشہور کتب خانہ میں پیپرس پر لکھی ہوئی تقریباً پانچ لاکھ کتابیں موجود تھیں۔ 50 سال قبل مسیح میں ان کی تعداد بڑھ کر سات لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ 74 سال قبل مسیح جولیس سیزر کے لشکر نے ان میں سے بہت سی کتابوں کو جلا کر راکھ کر دیا اور پھر بچی کچھی کتابوں کو تھیوڈرس کے حکم سے ضائع کر دیا تھا۔ اس کو شکایت تھی کہ ان کتابوں سے کفر و شرک کی بُو آتی ہے۔

لکھنے پڑھنے کا رواج عام ہونے کے ساتھ گھر گھر کتب خانے قائم ہونے لگے۔ لوگ کتابوں کو بہت احتیاط سے دھوپ کے رُخ پر رکھتے تھے تاکہ انہیں دیمک اور کیڑوں سے نقصان نہ پہنچے۔ عیسائیوں کے گرجا گھروں میں بھی کتب خانے ہوا کرتے تھے۔200 عیسوی میں اسکندریہ کے گرجا گھر میں ایک کتب خانہ موجود تھا۔ 250 عیسوی میں بشپ اسکندر نے یروشلم کے گرجا گھر میں کتب خانہ قائم کیا تھا۔ ارسطو کا ذاتی کتب خانہ بھی روم لایا گیا تھا۔ یورپ میں کتب خانوں کی ابتدا بادشاہوں اور امیر زادوں کے ذاتی کتب خانوں سے ہوئی، وہ بھی بہت بعد میں۔ فرانس کا موجودہ قومی کتب خانہ چارلس ہشتم کا ذاتی کتب خانہ تھا۔ ان کتب خانوں سے صرف خواص ہی مستفید ہو سکتے تھے۔ مطالعہ پر سخت پابندی تھی کیونکہ علم حاصل کرنا صرف خواص کا حق سمجھا جاتا تھا۔ کتابیں زنجیروں میں باندھ کر رکھی جاتی تھیں تاکہ کوئی عام آدمی ان کو نہ پڑھ سکے۔

ہندوستان میں مہا بھارت کے زمانہ سے ہی ویدوں اور شاستروں کے لکھے جانے کا سراغ ملتا ہے۔ بودھ گرنتھ جمع کرنا ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا۔ بودھ اور جین مٹھوں میں مختلف مذاہب کی ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔ ساتویں صدی عیسوی کے چینی سیاح ہوانگ سانگ نے نالندہ (بہار) میں ہزاروں کتابوں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔

مشہور ہے کہ وطن لوٹتے ہوئے وہ جو کتابیں اپنے ساتھ لے گیا تھا وہ 22 گھوڑوں پر لدی ہوئی تھیں۔ راجہ بھوج کے مشہور کتب خانے کا منتظم مشہور شاعر وان بھٹ تھا۔ قدیم کتب خانوں میں تکشلا، وکرم شلا اور ولبھی کے نام مشہور ہیں۔ ایک دوسرا چینی سیاح فاہیان نالندہ کے کتب خانے سے مختلف مضامین کی تقریباً ساڑھے 600 کتابیں نقل کروا کر اور تقریباً 500 قلمی نسخے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔

پال کے زمانہ میں وکرم شلا یونیورسٹی کا کتب خانہ اپنے کثیر ذخیرہ کتب کے سبب اپنی مثال آپ تھا اور اس کی مثال دی جاتی تھی۔ اموی اور عباسی دور میں مسلمانوں نے بھی بڑے بڑے کتب خانے قائم کیے تھے جس کا سلسلہ ہندوستان کے مسلم دورِ حکومت تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں مسلمان بادشاہوں میں سب سے پہلے علاؤالدین خلجی نے عوامی کتب خانوں کی بنیاد ڈالی اور امیر خسروؒ کو شاہی کتب خانے کا نگراں مقرر کیا۔ نظام الدین اولیاءؒ کے ذاتی کتب خانے کی دیکھ بھال بھی امیر خسروؒ ہی کے سپرد تھی۔ ہمایوں کے کتب خانہ کے آثار دہلی کے پرانے قلعے میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ اکبر کے زمانہ میں عبدالرحیم خان خاناں اور فیضی کے کتب خانوں کو بڑی شہرت حاصل تھی جن میں نجوم، فلسفہ، قانون، حکمت، تصوف، شاعری کے علاوہ جیومیٹری کی کتابیں بھی تھیں اور مضامین کے لحاظ سے درجہ بندی کر کے ان کتابوں کو علیحدہ علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ اکبر کی موت کے وقت قلعے میں تقریباً چوبیس ہزار نایاب کتابیں موجود تھیں جن میں رامائن اور مہا بھارت کے فارسی تراجم بھی شامل تھے۔ اکبر کی طرح جہانگیر کو بھی کتابوں سے دلچسپی تھی اور سفر و شکار میں وہ اپنے ساتھ کتابیں لے جایا کرتا تھا۔

شاہجہاں کے ذاتی کتب خانہ میں بیس ہزار کتابیں موجود ہونے کی روایت ملتی ہے۔ اورنگ زیب نے علمی اور مذہبی کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ اکٹھا کر لیا تھا۔ اس کی بیٹی زیب النساء نے بھی عالموں کے لیے ایک بہترین کتب خانہ بنوایا تھا جو ہوادار کمروں اور ضرورت کی دوسری چیزوں سے مزین تھا۔ دیگر مغل شاہزادے اور شاہزادیاں بھی کتابوں میں دلچسپی لیتے تھے اور ان کے ذاتی کتب خانے ہوا کرتے تھے، دکن میں بہمنی راجہ بھی علم دوست تھے۔ مشہور بہمنی وزیر محمود گاواں اپنی ساری کمائی کتابوں اور کتب خانوں پر خرچ کرتا تھا۔ بیجاپور کے عادل شاہی دور میں بھی کئی بڑے کتب خانے تھے۔

میسور کے راجا چکا دیورائے (1672 -1704ء) کے یہاں سنسکرت اور تاریخ کی کتابوں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ گجرات میں 980 عیسوی میں ایک کتب خانے کا ذکر ملتا ہے۔ ٹیپو سلطان کے کتب خانے میں دو ہزار نایاب کتابیں تھیں جن میں سے بہت سی کتابیں آج بھی کلکتہ کی ایشیاٹک سوسائٹی میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ سلطان ٹیپو کی عادت تھی کہ وہ جو کتاب پڑھ لیتے تھے اس پر دستخط کر دیتے تھے۔ ان کے محل سے جو کتابیں برآمد کی گئیں ان میں سے بیشتر پر ان کے دستخط تھے۔

مغل حکومت کے زوال کے بعد نواب اور صوبیدار حکمراں ہوئے تو انہوں نے بھی کتب خانوں کے قیام میں دلچسپی لی۔ مدرسوں کے کتب خانے شاہی کتب خانوں سے الگ تھے۔ ان میں قرآن، حدیث، فقہ اور منطق و فلسفہ پر قابل لحاظ تعداد میں کتابیں جمع کی جاتی تھیں۔1889 عیسوی میں کاٹھیاواڑ کے ایک مدرسہ میں ایک بڑا کتب خانہ قائم تھا۔ کئی مسجدوں کے ساتھ بھی کتب خانے ملحق تھے۔ مختصر یہ کہ عہد وسطیٰ کے ہندوستان میں کتب خانوں کا جال پھیلا ہوا تھا اور ان میں علم و سائنس کی ایسی ایسی نایاب و نادر کتابیں موجود تھیں جن پر آج کی جدید سائنس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

انگریزی دورِ حکومت میں ذرائع ترسیل کی ترقی کے سبب کتابوں کو فروغ حاصل ہوا۔ اس زمانہ میں بمبئی، کلکتہ اور مدراس جیسے بڑے بڑے شہروں میں عوامی کتب خانے کھولے گئے۔ بمبئی کی رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے تحت 1804ء میں ایک کتب خانہ قائم ہوا۔ اس سے قبل بنگال میں فورٹ ولیم کے رائل ایشیاٹک سوسائٹی میں ایک کتب خانہ قائم کیا جا چکا تھا۔ 1903ء میں کلکتہ کے مختلف کتب خانوں کو ملا کر ”امپریل لائبریری“ بنائی گئی اور اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ آزادی کے بعد اسی کا نام بدل کر ”نیشنل لائبریری“ رکھ دیا گیا۔ لائبریری سائنس کا پہلا کورس بھی یہیں شروع کیا گیا اس کے علاوہ پہلی ”لائبریری ایسوسی ایشن“ کا قیام بھی یہیں عمل میں آیا۔

حکومت ہند نے وقتاً فوقتاً مختلف کمیشن اور کالج و اسکول کے علاوہ یونیورسٹی کے لیے لائبریریاں قائم کیں جن میں انڈین ایجوکیشن کمیشن (1882ء) انڈین یونیورسٹی کمیشن (1902ء)، کلکتہ یونیورسٹی کمیشن (1917ء)، یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن (1948ء)، سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن (1964ء) قابل ذکر ہیں۔ ان مختلف کمیشنوں اور کمیٹیوں کی سفارشات کے نتیجے میں مختلف قسم کی لائبریریوں کے قیام اور ان کے فروغ میں بہت مدد ملی۔ لیکن سرسیاجی راﺅ گائیکواڑ نے 1904ء سے 1911ء) کے دوران کتب خانوں کے قیام میں جو دلچسپی لی تھی اور اس کا جو نتیجہ برآمد ہوا تھا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ اس سے پہلے 1967ء کے اس حکم سے بھی کہ ناشر کتاب شائع ہوتے ہی ایک کاپی نیشنل لائبریری کو بھیجے تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ ملک میں کتنی کتابیں شائع ہوئیں، کتب خانے کے قیام کی تحریک کو فائدہ پہنچا تھا۔ اس کا نقطہ عروج 1914ء میں ”آندھرا لائبریری ایسوسی ایشن“ کا قیام اور اس کے تحت لائبریری سے متعلق ایک رسالہ کے اجرا کے علاوہ ایک ”بحری لائبریری“ کا قیام تھا جو دریا کے کنارے رہنے والوں کو کتابیں فراہم کیا کرتی تھی۔

سوال تو یہ ہے کہ اگر فرغونوں کے محلات میں کتب خانے کے شواہد موجود تھے تو آج ہم کیوں کتب سے دور ہیں؟ کیا ہم اتنے قیمتی اثاثے جو ہمیں اپنی تاریخ سے شناسا کرتے ہیں، سے دور ہو کر اپنی تباہی کا خود سامان تو مہیا نہیں کر رہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post