سہانی یادوں کے دِل پگھلانے والےآنسو

 سارے وسائل‘ شان و شوکت اور سٹیٹس کے ہوتے ہوئے بھی ہم بے چین ہیں، معاشرہ مسلسل اضطرابی دلدل میں دھنس رہا ہے۔ لاکھ کاوشوں کے باوجود نسلِ نو بے نشان منزل کی مسافر ہے لیکن اِن مسائل کا حل ہم سے نہیں ہو رہا‘ آخر وجہ کیا ہے؟ آج ہماری زندگیاں اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہیں، ہماری معاشرت سے انسانی خصائل ناپید ہو چکے ہیں، کوئی ایسا عمومی عیب نہیں جو ہماری فطرت ثانیہ نہ بن چکا ہو۔ کوئی ایسی برائی نہیں جس میں ہم مبتلا نہ ہوں اور ایسی اخلاقی خرابی نہیں جو ہماری قومی بنیادوں کو کمزور نہ کر رہی ہو۔ ہم خود ان کمزوریوں میں مبتلا ہیں، کون ایسا رہبر ہے جو ہماری اِن تباہ کن عادات قبیحہ کے خوفناک نتائج سے ہمیں واقف کرے اور متوقع خوفناک انجام سے آگاہ کرے۔

دراصل اخلاقی اقدار وہ اصول ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سے افعال صحیح ہیں اور کون سے اعمال غلط، جب کوئی شخص اس طرح کے اقدار کو اپنے روزمرہ طرز عمل میں لاگو کرتا ہے تو وہ اخلاقی طور پر وہ کام کرتا ہے جس کی مثالیں ذمہ داری‘ دیانتداری‘ وفاداری اور اخلاص ہیں۔ اخلاقیات فلسفے کی ایک شاخ ہے جو افراد اور اخلاقیات کے طرز عمل کے مطالعہ کے لئے وقف ہے۔ اخلاقیات کی عکاسی کے ذریعے ہر شخص کو اپنے بارے میں خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ صحیح یا غلط کیا ہے؟ معاشرتی طور پر کیا صحیح ہے اور کیا نہیں؟ جانے کہاں گئے وہ لوگ جو تعلقات سماجی رتبوں، شان و شوکت، سٹیٹس ، ذاتی مفادات کو دیکھ کر استوار نہیں کرتے تھے بلکہ نظریات جن سے ملک و قوم، معاشرے کو بہترین بنانا، اخلاقیات کو نبھانا، سماجی اور مذہبی فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ معاشرہ کے افراد کا ایک دوسرے سے تعلق ہر خوشی‘ غمی پر مزید مضبوط ہوجاتا تھا اور اپنے معاشرے کے سفید پوش‘ مجبور‘ بے سہارا‘ ناداروں کے ساتھ کھڑے ہونا قابلِ سعادت رسم چلی آرہی تھی‘ لیکن پھر ہمارے انداز بدلے‘زمانے کے انداز بدلے اور معیار یہ بن گیا کہ ملک، معاشرہ انسانیت کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ ہم نے تعصب‘ سٹیٹس اور بس پیسے کمانے کے چکر میں اپنی روایات کو چھوڑ دیا‘ جس کاخمیازہ ہماری نسلوں کو تباہی کی صورت میں مل رہا ہے۔ عموماً تصور کیا جاتا ہے کہ تہذیب کی نمو اور آبیاری کا کام بس مخصوص لوگوں کی ذمہ داری ہے اور انہی کو تہذیبی روایات نبھانا‘ رکھ رکھاو اور پرانی سوچ کو نئی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے۔

ہماری بہت ہی شاندار و اعلیٰ اوصاف پر مشتمل تہذیب ہوتی تھی جس میں تفریق نہیں تھی اور نہ ہی کوئی کسی کمتری کا شکار ہوتا تھا۔ اول تو ایسی بات تو کوئی کرتا ہی نہیں تھا اور اگر کوئی ایسی حرکت کر بھی گزرتا تو اسے انتہائی نامعقول سمجھا جاتا تھا۔ معاشرے میں کسی غریب گھرانے کو تنگی کا احساس نہیں دلایا جاتا تھا بلکہ اللہ کریم کے حکم ”ان کے چہروں سے انہیں پہچان لیا کرو“ صاحب ِ ثروت خود سے ان کی مجبوریوں کا خیال رکھتے تھے‘ راستے‘ پانی‘دوسروں کے لئے آسانیاں باٹنا سعادت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب احساس توکجا ہم بغیر دِل آزاری کیے‘ راستے‘ پانی‘ اذیت دینے اپنی وارثت سمجھتے۔وہ لوگ کسی کے کام آنا باعث ِ افتخار سمجھا کرتے تھے‘ہم کسی کو تنگ کر کے خود کو افلاطون سمجھ رہے ہیں۔ ان لوگوں کو تعلیم یافتہ ثابت کرنے کے لیے تعلیمی اسناد دکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی بلکہ اخلاق‘ اندازِ گفتگو‘نشست و برخاست اور تہذیبی رکھ رکھا ¶ ہی خاندانی ہونے کی عام نشانیاں تھیں۔ آج کی طرح برانڈڈ لباس‘جوتے اور پرس یعنی ظاہری اور اوپری لبادہ کسی کے خاندانی وقار میں اضافے کا سبب نہیں بنتا تھا بلکہ یہ نو دولتیا پن کہلاتا تھا۔

پھر محلوں اور گلیوں میں بھی سگے رشتوں کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی جیسے رشتے بھی محترم اور دیرپا ہوا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب محلوں‘ گلیوں اور گھروں کے چبوتروں پر بچے کھیلوں میں مگن رہا کرتے تھے۔ جب ایک گھر میں اچار ڈالتا تو گلی کے ہی نہیں بلکہ محلے کے کئی گھروں میں بانٹا جاتا تھا اور آس پڑوس کے گھروں میں سالن بھیجنا ایک معمول کی بات تھی۔ کسی غریب کے بچے کی بغیر تشہیر سکول فیس دے دینا‘ یونیفارم مہیا کرنا ذریعہ نجات سمجھا جاتا تھا‘ لیکن شائد یہی چیزیں فیس بُک‘ واٹس ایپ سٹیٹس کی نذر ہو چکیں اور غریب کے بچوں کی عزت نفس جیسی نام کی چیز بھی تلف کر دی گئی۔ وہ تعلیم کیا حاصل کریں، احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے۔ اب بہت یاد آتے ہیں وہ دِن وہ سہانے‘ وہ رونق وہ میلے‘ وہ گاوں وہ ٹیلے۔

سنہ70 اور 80 کی دہائی میں بھی آج کل کی طرح کے فیشن عام تھے لیکن ہر باوقار شخصیت میں سادگی کا عنصر غالب رہتا اور سادگی صرف لباس میں ہی نہیں بلکہ رہن سہن کا بھی حصہ تھی۔ اُس وقت کے ڈرامے دیکھ لیں‘ اپنے گھروں اور محلوں کو یاد کریں اور سوچیں کہ کیا کیا حسین یادیں زمانے کے ہاتھوں مٹی ہوا چاہتی ہیں۔ ہم ڈیکوریٹڈ ڈرائنگ رومز‘ ویل فرنشڈ بیڈ رومز میں مزے کرتے ہیں کیونکہ اب آپ کو ڈر ہے کہ کہیں آپ کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ ہم سب اس ذہنی مرض میں مبتلا ہیں کہ ہمیں بہترین موبائل‘ اچھی سی گاڑی‘ برانڈڈ لباس ضرور چاہیے کیونکہ ان سب چیزوں کے بغیر آپ کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا۔

اَدب و احترام‘ انسانیت‘ ہمدردی‘ اخوت کا رجحان تو ہوا ہی ہو گیا، پہلے محلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی‘ رواداری‘ احساس اور اپنائیت کی فضا ہوا کرتی تھی۔ گھروں میں بچوں اور بڑوں کو کتاب پڑھنے کی ترغیب دی جاتی تھی بلکہ بہترین تحفہ کتاب، گھڑی اور پین سمجھا جاتا تھا اور اب لوگ اچھی کتاب پر بات ہی نہیں کرتے بلکہ بڑے بڑے اسٹورز پر لگنے والی ملبوسات، جوتوں اور ہینڈ بیگز پر سیل کی کہانیاں عام ہیں، اسی لیے اب کتاب مہنگی اور لباس اور جوتے سستے سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارامعاشرہ غریب پرور نہیں رہا اور ہم اس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں، لیکن اب اس کے بھیانک نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں ٹھہراو، تحمل اور برداشت کا سلسلہ رُک سا گیا ہے۔ اب کسی کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دینا، سفید ریش کے لئے راستہ دینا، کسی کی مجبوری کو رفع کرنا اور دکھ سکھ بانٹ لینا خوبی نہیں، کمزروی اور سٹیٹس کے خلاف عادت سمجھی جاتی ہے۔

روپے پیسے کی اہمیت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گی، لیکن اس کو قبلہ و کعبہ بنا لینا کچھ عرصہ پہلے ہی ہمارے حصہ میں آیا اور اب ہم میں رچ بس گیا ہے جبکہ انسانیت الوداع ہونا شروع ہو گئی۔ ہم سب روپے پیسے کمانے میں ایسے لگے کہ اپنے بچوں کو نہ اچھا بچپن دے پارہے ہیں اور نہ ہی اچھی شخصیت۔ ہمارے معاشرے میں اپنی ہی نہیں بلکہ پڑوس‘محلے کے غریب‘ مجبور بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں صرف گھر والوں کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ خاندان کے کتنے ہی بڑوں‘ گلی اور آس پڑوس کے کتنے ہی ماموں‘ خالہ‘ چچا‘ دادا‘ نانی جیسے کردار نے اپنا اہم کردار ادا کیا کرتے تھے۔ گلی کے ہر بڑے کو حق حاصل تھا کہ وہ بچوں اور بڑوں کو ہر غلط بات پر ٹوکیں اور ان کو اچھے برے کی تمیز کرانے میں ان کی مدد کریں۔

اَب ایسی ہوا چلی ہے کہ اچھے اور مضبوط رشتوں پر بھی سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں۔ نفسا نفسی کے اس دور میں کون غریب کون امیر؟ کون بڑا، کون چھوٹا؟ کیا تہذیب‘ کیا بد تہذیبی؟ کسی کے پاس کسی کے لیے وقت ہی نہیں رہا۔ یقینا انسانیت کے دم سے بھی معاشروں میں رونق ہوتی ہے اور احساس کے دم سے ہی معاشرہ میں بھلائیوں اور اچھائیوں کی آمد جاری رہتی ہے۔ اب وہ اقدار کمزور اور ناتواں ہو گئیں تو دوسروں کا کیا کام ہے کہ وہ ہماری مزاج پرسی کو آئیں‘ لیکن اب یہ سب باتیں پیسا کمانے کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہیں۔

روز ایک نئی دوڑ تیز اور تیز بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے اور ہم کسی اور کام کے قابل نہیں رہے‘ مطلب پرستی‘ انا‘ عصبیت‘ کھوکھلے نظام نے ہمیں سب کچھ آراستہ کر کے دکھایا جس کا حقیقت سے دور تلک کوئی واسطہ ہی نہیں۔ اس میں ہماری بھی غفلت ہے۔ ہم بس غیروں کی سازش قرار دے کر خود کو بری الذمہ کر لیتے ہیں۔

یقین کیجیے کہ جن لوگوں نے اپنی تہذیب‘ تمدن اور اخلاقی روایات کی قدر کی، اپنی معاشترتی اقدار کو مقدم جانا‘ اپنے ملک‘ قوم‘ معاشرے کو مقدم رکھا‘ ان کی مثالیں دُنیا دیتی ہے۔ ان لوگوں سے قوم نے ہی نہیں بلکہ باقی اقوام نے بھی بہت کچھ سیکھا۔ روپیہ پیسہ ایک حقیقت ہے لیکن یہ سب کچھ نہیں ہے۔ دراصل اچھی اقدار اور محنت سے زندگیاں بدلتی ہیں۔ آئیں ایک نئی سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں بدلیں‘ یقین کریں انسانیت اور دوسروں کی بھلائی میں حقیقی حسن ہے! اور اس منزال کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے سیرتِ معصطفیٰﷺ کو زندگی میں عملی طور پر شامل کرنا ہے، اس سے آخرت تو سنورے گی ہی، دنیا بھی جائے امن و سلامتی بن جائے گی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post