یوم آزادی‘ کیا ہم اکھٹے نہیں مانا سکتے؟
وطن ِعزیز
پاکستان کے تقریباً 22کروڑ عوام آج 14اگست 2022ء کو 75واں یوم ِ آزادی منانے جا
رہے ہیں۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کی نعمت ِ عظمیٰ ہے۔ آج پورے ملک میں تقریبات‘ سیمینار ‘ جلسے جلوس‘ ریلیاں نکالی جائیں گی اور تعطیل ِعام ہوگی۔
یقیناوطن پاکستان کے معرض ِ وجود میں آنے کے تاریخ دریچوں سے حقائق سامنے لائے
جاتے ہیں تو یہ جشن ہم سے بہت سارے تقاضے کرتا ہے۔ سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ ہمیں
اس ملک کے بنائے جانے اتنی قربانیوں کا مدعا جاننا چاہیے۔ اس دِن تجدید عہد کریں۔
کہ یہ وہ واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پر ریاست ِ مدنیہ کے بعد معرض وجود میں
آئی۔ جس کا مطلب ہی لا الہ الا اللہ ہے۔ قائد اعظم نے واشگاف الفاظ میں کہا:ہمارے
پیش ِ نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے
اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں‘ پھر
114خطابات‘ تقاریروں میں واضح پیغام دیا
کہ ملک کا آئین و دستور قرآن و سنت کے
تابع ہوگا ٗ جب قائد ِ اعظم سے دستور وآئین کے متعلقہ استفسار کیا گیا تو سنہری
حروف سے لکھے جانے والے الفاظ میں جواب دیا: ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل
میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا فرمایا، یہ ایک زمین کا ٹکڑا نہیں
بلکہ اسلامی تجربہ گاہ ہے، جہاں ہم اسلام کو نظام ِ زندگی کے طور پر اپنا سکیں گے
اور اپنی زندگیاں قرآن وسنت کے مطابق گزاریں گے۔ یہ ہے مقصدِ پاکستان‘ یہ ناچنے ‘ بے حیائی‘ فحاشی ‘ کرپشن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ہم انفرادی حیثیتوں میں صرف اپنے
گھر کی چار دیواری کو اپنا سمجھتے ہیں۔ چار دیواری کے اندر صفائی کرتے ہیں اور گھر
کا کچرا گلی میں پھینک دیتے ہیں۔ ہم گھر کو تو صاف رکھتے ہیں مگر ملک کو صاف نہیں
رکھتے۔ ملک کو اپنی ذمہ داری سمجھنا تو دور، ہم نے شاید اسے اپنا ماننا بھی چھوڑ دیا
ہے۔ ہر بات کی ذمہ داری دوسروں پر، اداروں پر‘
معاشرے پر‘ میڈیا
پر‘ سیاسی رہنماؤں اور حکومت پر ڈال کر ہم اپنے
فرائض سے غافل کیسے ہو سکتے ہیں؟
قومیں اپنے
نظریات کی بنیاد پر زندہ رہتی ہیں۔اپنے اسلاف کے طے شدہ نقوش‘ اپنے نظریات کو فراموش کرنے والوں کا وجود یہ
دھرتی زیادہ دیر تک برادشت نہیں کرتی۔ان کا وجود جلد ہی حر ف غلط کی طرح مٹ جاتا
ہے۔اور پھر پاکستان اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے بغیر سر کے تن۔ اس وطن کی
خاطر ہمارے اسلاف کو توپوں کے آگے باند ھ کر انہیں چلایا گیا ‘ کتنے ہی نوجوانوں
کو قید میں ڈالا گیا جن کی ہڈیاں بھی اسی قید خانے میں ختم ہوئی۔ ماؤں بہنوں کی
عزتیں تار تار ہوئی ‘ چھتوں سے اٹھا کر
زمین پر مارا گیا ‘ سر تن سے جدا ہوئے ‘ ناشتے میں اہل وعیال کے سر پیش کیے
گئے۔ماؤں کے سامنے ان کے لخت جگر کے ٹکڑے ہوئے ‘ پھر مخلصانہ ‘ تدبرانہ قیادت کی
شب وروز انتھک محنت‘ مشقت سے آزادی حاصل
ہوئی۔کیا وجہ ہے جو آزادی خون ‘ عزت ‘ قربانی ‘ شہادت کے بعد حاصل ہوئی اس کا آج 75واں
سال ہم جشن منانے جارہے ہیں۔ لیکن اس وطن سے آج تک غربت ‘ جہالت ‘ بے روزگاری ‘ معاشی
واقتصادی بحران ‘ بوسیدہ نظام ِتعلیم ‘ امتیازی سلوک‘ عدل و انصاف کا عدم توازن ‘ جاگیرداری و سرمایہ
داری ‘ غریت و افلاس ‘ مذہبی ولسانی تفرقات ‘ تعصب ‘ یہ کروڑ کی خلقت غریت‘ محرومی ‘ موذی امراض کی زنجیروں میں جکڑی‘ بنیادوں حقوق سے یہ قوم و ملک محروم کیوں
ہیں؟حالانکہ اس دِن کو سات عشرے سے زاہد عرصہ بیت چکا۔کیوں آج بھی ظلم دندناتا ٗ
غریب سسکتا ہے؟کیوں آج بھی قدرتی وسائل سے لیس ہونے کے باوجود آئی ایم ایف و دیگر
کے مرہون منت ہیں؟۔کیوں ایک طبقہ آکسفورڈ نصاب ‘ ایک طبقہ بنیادی تعلیم سے محروم
ہے ‘ کیا وجہ ہے کہ ہم سے بہت بعد میں
آزادی ملنے والے ترقی یافتہ ‘ ہم تنزلی سے دوچار ہیں۔
یوم آزادی پر
ہمیں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور اپنے اسلاف کی قربانیوں کو مدِ نظر رکھ کر تمام
تعلیمی اداروں میں سیمینار‘ تقریبات کا
انعقاد کریں اور اس میں وہ تمام نئی نسل کے سامنے رکھیں جائیں جن کے لیے یہ وطن
حاصل ہوا۔75سال سے جشن آزادی جوش و جذبہ سے منانے کے باوجود یہ نسل ِ نو میں سے
20فیصد کو بھی شاید مقاصد کا صحیح علم نہیں۔ عظیم ترین مقاصد کے ہوتے ہوئے بھی اگر
راستہ غلط اختیار کیا جائے تو منزل کبھی نہیں ملتی۔اسلامی جمہوریہ پاکستان اس میں
ہم آزادی کا سانس لے رہے۔لیکن ہم نے اس ملک سے وہ وفاء نہیں کی جس کا یہ متقاضی
ہے۔ یقینا یہ دیکھ کر ہر ذی شعور ششدر رہ جاتا ہے کہ ایک طرف تو ہم اس ملک میں
ترقی‘ اسلامی نظام‘ عدل ‘ احتساب سات عشروں سے زاہد لانے کے لیے
کوشاں ہیں تو دوسری ہی طرف اس جشن آزادی کے دن ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر اور اپنے
اسلاف ٗ شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنی چاہیے۔ لیکن یہ کہاں کا ملک کے ساتھ انصاف
ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آج بھی ہمارے بھائی بہنیں ظلم کی زنجیروں میں جکڑے
ہیں۔تو دوسری طرف ہماری آزادی کے دن کا جشن دنیا دیکھتی ہے ہم اس ملک کو مدنیہ کے
بعد ریاست دیکھتے ہیں تو پھر اس کی طرز پر جشن منانے چائیے۔ فتح مکہ کے موقع پر
غیر مسلم سمجھ رہے تھے کہ آج فتح کا دن بد لہ لیا جائے گا اور رس کی محلفیں ہوں گی
لیکن دیکھا تو رحمت العالمین ﷺ شکرانہ کے الفاظ ادا کر رہے ہیں۔
آج ہمیں بھی
اس آزادی کے موقع پر شکرادا کرنا چاہیے تام تر ذاتی سیاسی ‘ مذہبی ‘ لسانی‘ فرقہ وارانہ ‘ نسلی تفرقات کو بالا طاق رکھتے
ہوئے اس وطن کی عزت حرمت کو مقدم رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو نا چاہیے۔ ملک
اس وقت شدید معاشی‘ اخلاقی بحران کا شکار ہے‘ ہم مسائل کے حل کے بجائے ایک دوسروں
کو کانٹے پر تیار ہیں۔ مسائل کے حل کے لئے ہمیں آگے آنا ہوگا۔ سسٹم کا برا بھلا
کہنے کے بجائے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس سسٹم میں کیسے مثبت تبدیلیاں لائی جا
سکتی ہیں۔آئیے! اپنے ملک و ملّت کے ساتھ ساتھ خود سے بھی یہ تجدیدِ عہدِ وفا کریں
کہ یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسباں اس کے۔
ہمارا ملک‘ آزادی ہم سے جسد ِ واحد ہونے کے
متقاضی ہیں۔ہمیں سیاسی‘ مذہبی‘ گروہی‘ لسانی‘ قبیلائی گروہ بندی سے بالا تر ہو کر
ایک امت بن کر اس ملک کی خاطر ایک ہونا ہو گا۔کیا باقی اقوام کی طرح ہم بھی وطن کی
خاطر ایک نہیں ہو سکتے؟ اللہ تعالی وہ وقت بھی لائیں کہ ہمارے ساتھ مقبوضہ کشمیر
کی عوام بھی یوم ِآزادی منائیں۔امید ہے کہ وہ سورج جلد طلوع ہو گا۔اللہ اس ملک کو
تمام اندرونی بیرونی سازشوں ‘ خلفشار ‘ دہشت
گردی ‘ جملہ مسائل‘ بحرانوں سے نجات دیں
تاقائم ِ قیامت قائم و دائم رہے۔
