عابد ضمیر ہاشمی
مصنف: مقصدِ حیات
آزاد کشمیر
انسان کی فطرت ایسی ہے کہ اسے زندگی میں سب کچھ اپنے
مطابق چاہیے۔ سب اس کی مرضی اور منشا کے مطابق نہیں ہوتا ہے تو وہ ناامید اور
مایوس ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی اسے احساس ستاتا ہے کہ اب اسے مزید نہیں جینا۔ انسان
بنیادی طور پر جلد باز واقع ہوا ہے۔ اسے اگر کچھ حاصل کرنا ہو تو وہ اس کےلیے تگ و
دو کرتا ہے، دعائیں مانگتا ہے، محنت کرتا ہے، مگر جب اس کی منشا کے مطابق اس کو
پھل نہیں ملتا تو وہ تھک جاتا ہے اور اسی تھکن میں وہ مایوسی کے اندھیرے میں اپنا
وجود، اپنی امید اور اپنا یقین کھو بیٹھتا ہے۔ اسے زند گی بے رنگ لگنا شروع ہوجاتی
ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی زندگی میں دلچسبی ختم ہوجاتی ہے۔ مگر یاد رکھیے کہ کچھ
بھی ہمیشہ کےلیے نہیں ہوتا ہے۔
دنیا سیاہ اور مبہم خواہشات کے اسیر لوگوں سے لبریز ہے
۔ اختیار حاصل کرنے کی لامتناہی ہوس کے باوجود دنیا اپنی جگہ پر موجود ، ملجگی
خواہشات کی مہیب تاریکی کا پھیلائو ایک حقیقت،لیکن یہ بھی درست ہے کہ امید اور
روشنی کی کرنیں ساعت درساعت اپنا راستہ بناتی دکھائی دیتی ہیں ۔ دنیا کے دہرے
رنگوں میں ہم جینا سیکھتے ہیں ۔ فریڈرک نطشے یہ متناقضہ اس پیرائے میں بیان کرتے
ہیں’’میں ایک جنگل، اور سیاہ درختوں کی رات ہوں ۔ لیکن جوشخص میری تاریکی سے خوف
زدہ نہیں ، وہ میرے دیوہیکل درختوں کے نیچے گلابوں کی کیاریاں پائے گا۔ ‘
جس طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گلِ
تر اپنی عطر بیزی کے منابع سے ،ثمر ِ نورس اپنی حلاوت کے ذخیرے سے،بُور لدے چھتنار
اپنی گھنی چھاؤں کی اداؤ ں سے،دریا اپنی طغیانی سے ،حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی
سے ،اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے،سمندر اپنی گہرائی سے ،کلام ِ نرم و نازک
اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے ، شعلہ اپنی تمازت سے ،گفتار اور رفتار اپنے معیار
اور نزاکت سے ،کردار اپنے وقار سے ،جذبات و احساسات مستقبل کے خدشات اور اپنی بے
کراں قوت و ہیبت سے ، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ، سمے کا سم کے اپنے ثمر سے
،قوتِ عشق اپنی نمو سے ، سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ جُو سے، گنبد نیلو فری کے
نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان سے ،خلوص و دردمندی اپنی خُو سے
،حریت ِ ضمیر اپنے خمیر سے ،موثر تدبیر سوچنے والے نوشتۂ تقدیر سے،ایثار و عجز و
انکسار کی راہ اپنانے والے جذبۂ بے اختیار کی پیکار سے ، حسن و رومان کی داستان جی
کے زیاں سے ،جبر کی ہیبت صبر کی قوت سے ،ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے ،چام کے دام
چلانے والے مظلومو ں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ
جاہ و حشمت کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ہم وظائف کی فضلیت کو نہیں جانتے،
مشکل وقت میں جب انسانیت کو دونوں ہاتھوں سے اپنے مفادات کے
لئے لوٹا جا رہا ہے، ایسے میں حکیم طارق محمود، ایڈیٹر عبقری رسالہ، جن کے لاکھوں
چاہنے والے ہیں، جن کے وظائف سے لاکھوں لوگ مستفید ہو رہے۔ ایسے لوگ کسی نعمت سے
کم نہیں ہیں۔
ابتلاء کا دور ہے، دُنیا بھر میں مہلک امراض سے متاثرہ
افراد کی تعداد اور اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں بات مہلک
امراض اور اس کے اثرات پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ ایسی وبائیں بھی پھوٹ
پڑی ہیں جن کا تعلق کسی وائرس سے نہیں بلکہ براہ راست انسانوں سے ہے جو وہ بغیر
کسی وائرس کے سہارے کے پھیلانے میں مصروف ہیں۔ دنیا کو اس وقت صرف وباوں کا سامنا
ہی نہیں بلکہ مادر پدر آزاد سوشل میڈیا اور جہالت کی مہلک وبائیں بھی پھوٹ پڑی
ہیں۔
ہماری عدم توجہی کے باعث ان کے پھیلاؤ کی رفتار وائرس
کی رفتار سے بھی دس گنا زیادہ ہے۔ جاہل اور غیر سنجیدہ عناصر کی جانب سے پھیلایا
جانے والا جھوٹ اور دیگر خرافات انسانیت کے لئے مزید نقصان کا باعث بن رہی ہیں۔ ان
خرافات کا سب سے بڑا نقصان لاعلاج بیماریوں سے متعلق روزانہ سامنے آنے والی نئی
تحقیق، احتیاطی تدابیر اور دیگر مفید معلومات کا بوجھ اٹھائے سچ کی کشتی عوام تک
پہنچنے سے قبل ہی خرافات کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے۔ امراض سازش ہیں یا حقیقت
دنیاان کے ہاتھوں ابہام کا شکار ہو کر مشکلات سے دوچار ہے۔
کوئی بھی مرض یا کوئی بھی عالمی وبا بے احتیاطی، ٹوٹکے
مرض کو انسان کے لیے مزید گمبھیر کرتے ہیں۔ آج کل کورونا معاملے میں بھی ہمارے
غمخوار بڑی فیاضی سے سہولت کار بنے ہیں، اور وہ ہے اندھا دھند مشورے دینے والے خود
ساختہ معالجوں کی انتھک خدمات! بلکہ درحقیقت ہم اسی واحد معاملے میں خود کفیل ہیں۔
کیونکہ ایسے معاشرے میں زندہ رہنے کے عادی ہو چکے ہیں جہاں نسب میں شرافت ڈھونڈھنے
اور ہر معاملے میں بنا مانگے مشورے دینے کا عمل مشترکہ مشغلہ سا ہے۔
لیکن ایک حوالے سے ہم باقی اقوام کی نسبت کسی قدر خاص
بھی ہیں، کیونکہ ہمارے پاس ہر گلی کوچے میں ایسے اتائیت بھی ہیں کہ جن کے طبی
مشوروں کے لیے پہلے بیمار پڑنے کی شرط اور جھنجھٹ بھی ضروری نہیں ہوتا اور مزید
خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کے ان طبی مشورے کو لینے والا چند روز بعد ہی اس نسخے کو
استعمال کرنے کے قابل بھی ہوجایا کرتا ہے۔ ویسے خود کئی امراض کا شکار ہونے کے
باوجود وہ ہمہ وقت طبی مشاورت کے ذریعے بہبود عامہ کے لیے نہایت بیقرار رہتے ہیں
اور منفرد صفت یہ کہ جوکوئی یونہی ان کے آس پاس ذرا دیر کو بھی آ بیٹھے تو وہ ایک
دو ان امراض کے علاج کے نسخے لیے بغیر نہیں اٹھ پاتا کے جن کے آثار وہ اس میں
باآسانی و بغیر بتائے بھی تلاش کر ہی لیتے ہیں۔
اب کورونا کی عالمی وبا جو لاکھوں انسانی جانیں نگل
گئی، ہمارے سادہ لوح، خصوصاً ً دیہی علاقوں میں ایسے غم خوارجو علامتیں کچھ اس
دلسوز و ہیبتناک طور سے بتاتے ہیں کہ خشوع و خضوع سے سننے والا آناً فاناً خود میں
یہ سارے امراض موجود پانے لگتا ہے اور ان کے نسخوں کے حصول کے لیے مچل مچل ا اٹھتا
ہے۔
معمولات زیست میں یہ نیم حکیم، خطرہ جان تو ہوتے ہی
ہیں، جن بیشتر نسخے لینے والے تہ خاک چھپ بھی جاتے ہیں اور پھر بھی یہ سلسلہ کبھی
بھی تھمتا نہیں۔ بلکہ ان سے نسخہ لینے والے کبھی کسی دوسرے مرض سے مرتے نہیں دیکھے
گئے۔ تاہم ان کے اخلاص پہ شبہ کرنے کی گنجائش بھی کبھی نہیں نکل سکی۔ کیونکہ انہوں
نے اپنے نسخوں پہ منحصر کئی مریضوں کی تجہیز و تکفین میں بھی اسی انہماک سے شرکت
کی کہ جس والہانہ پن سے انہیں نسخہ جات کی تابڑ توڑ رسد فراہم کرتے ہیں۔
ان ایام میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ جن پر تنقیدی
اظہار خیال کے بعد انتقامی و التزامی انداز میں تادیر ان کے سینہ گزٹ نسخہ جات ابل
ابل کے ان کے منہ سے نکلتے اور سادہ لوح افراد کے کانوں میں داخل ہوتے رہتے ہیں
اور ان میں سے کئی کے تو نام ہی ابکائی آور سے معلوم ہوتے ہیں اور جن کے ذکر ہی سے
میں کچھ دیر کے لیے وہ خود کو بیمار بیمار سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ان کے نسخہ جات
سے بسا ء اوقات مریض کو درد وغیر ہ کا آرام محسوس ہی نہیں بلکہ بشاشت اور راحت کا
ہرامکان کافور ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
ایسے حالات میں اگر ان کے مداحوں سے کہا بھی جائے کہ
مرض خطرناک ہے اور ایسے غیر سنجیدہ ٹوٹکوں سے جان لیوا بھی ہو سکتا تو وہ سمجھتے
ہیں کہ ان کی انتہائی کاوشوں کے باوجود کچھ ہنوزایک کندۂ ناتراش ہیں اور ہر طرح
کی حکمت خصوصاً طب سے مکمل نابلد ہیں، بلکہ ان طبی امور سے بے پایاں و خصوصی بغض
رکھتے ہیں۔ اور اپنی اس ذاتی بے مثل غفلت و شدید حماقت کے باعث عالم انسانیت کی رضاکارانہ
خدمت پہ مامور ان جیسے گشتی شفاخانے سے مستفید ہونے کی سعادت سے خود بھی محروم
رکھتے ہیں، اپنے ممکنہ لواحقین کو بھی اس نعمت سے دور رکھنے کی جسارت کرتے ہیں۔
اور ایسے افراد کا یہ فعل شنیع کسی بڑے گناہ کے درجے میں شمار کیے جانے لائق ضرور
ہے اور یقیناً یہ عمل ان کی بخشش کے آڑے بھی آ سکتا ہے۔
ان کے نسخہ جات سن کر ہی ایک پڑھ لکھا شخص ششدر رہ جاتا
ہے ان کی حوصلہ شکنی کے بجائے ان کی تالیف قلب اور رفع خفت کے لیے خاموشی بہتر
قرار دی جاتی ہے۔ ہماری یہ بے احتیاطی، غفلت کہیں ملک، قوم کی مشکلات کا سبب نہ بن
جائے۔ حتی الامکان احتیاط کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کریں، اور محض ایسے اتائیوں کی
دلبستگی کے لیے ان کے نسخوں کا سہارا لیتے نہ لیں۔
