کشمیر۔ عہد بہ عہد!

 کشمیر کو بھارت جبراً فتح کرنے کے خواب دیکھتا ہے۔ کشمیر ’کب کی بات ہے۔ اور اس میں مسلم حکمرانی کا آغاز کب سے ہوا؟ اس حوالہ سے مصنف جی ایم میر‘ اور معاون مصنف اشفاق ہاشمی نے اپنی تصنیف کشور کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں بہترین عکاسی کی ہے۔ وہ کشمیر کے بارے میں یوں راقم طراز ہیں : ”جنت ارضی جموں کشمیر کا خطہ گزشتہ چار صدیوں سے ( 417 سال سے ) غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ 16 ویں صدی میں مغلوں نے نصف صدی کی پے در پے جارحیت کے بعد 1586 ء میں اس خطہ کو تسخیر کر کے اپنی سلطنت کا ایک حصہ بنا لیا اور 166 سال پر حکمرانی کرتے رہے۔

مغلوں کو آیا تو افغانوں نے 1753 ء میں تسخیر کر کے 67 سا



ل تک اپنا غلام بنائے رکھا۔ افغانوں کے زوال کے بعد پنجاب کے سکھ فرمانروا رنجیت سنگھ نے افغانوں کو شکست دے کر اس پر اپنا اقتدار قائم کر لیا ’جو کہ 1846 ء ( 27 سال) قائم رہا۔ جب انہوں نے انگریزوں سے جنگ میں شکست کھائی تو تاوان جنگ کے طور پر اس خطہ کو انگریزوں کے سپرد کر دیا‘ جنہوں نے جموں کے ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ اس خطہ ارضی پر حکمرانی کے حقوق 75 لاکھ روپے میں فروخت کر کے اس کے حوالے کیا اور وہ صدی تک اس خطہ ارضی پر اپنی مطلق العنان حکومت چلاتے رہے۔

ہزاروں سال پہلے سرزمین کشمیر ایک وسیع جھیل تھی جس کا نام ستی سر تھا ’اسے ہر طرف سے اونچے پہاڑوں نے گھر رکھا تھا‘ نامور محقق پروفیسر محی الدین حاجنی کا خیال ہے کہ اس زمانے میں پہاڑوں پر اگر کوئی انسان بستے تھے تو ان کی زندگی بن باسی رہی ہوگی۔ دیو مالائی قصوں کے مطابق جلد بھو JALODBHAVA) ) نامی آدم خور دیو جھیل سے نکل کر کناروں پر آباد بستیوں میں لوگوں کو تنگ کرتا تھا۔ کشپ رشی نے بارہ مولہ کے قریب ایک پہاڑ کاٹ کر جھیل کا پانی باہر نکالا۔

تاہم جو لوگ دیو مالائی کہانیوں پر یقین نہیں رکھتے ’انہیں برنئیر جیسے محقق یہ خبر دیتے ہیں کہ یہ علاقہ زلزلوں کی زد میں رہا ہے جس کی وجہ سے پہاڑوں میں شگاف پڑ گئے۔ چنانچہ کھادن یار کے قریب پہاڑ میں شگاف پڑ گیا۔ اور ستی سرکا پانی نشیب کی طرف بہہ نکلا۔ جس کی نشانی آج کا دریائے جہلم ہے۔ مشہور جغرافیہ دان فریڈرک ڈریو کے مطابق دیو مالائی روایات ہمیں ماضی کی تاریخ کے بارے میں اصلیت جاننے میں بہت مدد دیتی ہے۔ چنانچہ یہ بات امکان سے باہر نہیں کہ کشمیر میں پہاڑوں کے پھٹنے اور اس کے نتیجہ میں ایک عظیم سیلاب کے وقوع میں آنے کی وجہ سے ہی ہڑپہ اور موہنجو داڑو کی تہذیبیں ناپید ہو گئیں۔

قدیم زمانے میں یونانی کشمیر کو کیسییر (Kaspeiria) کے نام سے پکارتے تھے۔ ہیروڈوٹس نے اپنے کلاسیکی لٹریچر میں اسے کیسپا تاوئیروس (Kaspatyros) کا نام دیا ہے۔ ہیکاتایوس (Hekataios) نے کیسپالایئروس یا کیسپا پایئروس کا نام دیا ہے۔ 578 میں چینی سیاحوں تو ینگ (To Yeng) اور سنگ یان (Sung Yan) نے اسے شئی می (Shie MI) کا نام دیا ہے۔ 631 ء میں اسے ہیون تسانگ (Hieun Tsang) نے کیا شی می لو (Kia Shi Mi Lo) کا نام دیا۔ کشمیری اور گلگتی اسے کشیر (Kasheer) کہتے ہیں۔ تبتی زبان میں کھچل (Khachal) کہلاتا ہے اور درد لوگ اسے کشروٹ (Kashrot) کہتے ہیں۔ (پی این کے بامزئی) ۔

اگرچہ کشمیر میں مسلم حکمرانی کا آغاز 1325 ء میں رینچن شاہ سلطان صدرالدین نے کیا تھا لیکن چونکہ اس کی وفات کے بعد راجہ اودیان دیو (سابق حکمران سہد یو کے بھائی) نے دوبارہ کشمیر کا اقتدار سنبھالا جو کہ 1343 ء تک جاری رہا ’اس لئے حقیقت میں مسلم حکمرانی کے دور کا آغاز 1343 ء سے ہی تصور کیا جائے گا جب سلطان شمس الدین میر نے کشمیر کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس کے بعد شاہ میری خاندان 1554 ء سے 1586 ء تک 32 سال چک حکمران بر سر اقتدار رہے۔ جن میں سے یوسف شاہ چک نے دوبارہ تحت سنبھالا۔ آخر 1586 ء میں دہلی کے مغل شہنشاہ نصف صدی کی مسلسل کوششوں کے بعد کشمیر پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ اس دوران کئی بار انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

سلطان شمس الدین ( 1343 ء) سے سلطان حبیب شاہ ( 1554 ء) تک 211 سال شاہ میری خاندان کی حکمرانی رہی اور غازی خان چک 1554 ء سے یعقوب شاہ چک 1586 ) ء) تک 32 سال چک خاندان حکمران رہا۔ 1586 ء میں مغل حکمرانوں نے نصف کی کوششوں کے بعد کشمیر کو تسخیر کر کے مغل ایمپائر کا حصہ بنالیا اور کشمیری عوام غلامی کے ایک طویل دور میں مبتلا ہو گئے جواب تک جاری ہے۔

کشمیر کے مسلم سلاطین اور بادشاہوں کی تفصیل:

سلطان صدرالدین۔ رینچن شاہ ’1325 ء تا 1327 ء ( 2 سال 7 ماہ)‘ سلطان شمس الدین ’1339 تا 1342 ء ( 3 سال 5 ماہ)‘ سلطان جمشید ’1343 ء تا 1344 ء ( 1 سال 2 ماہ)‘ سلطان علاوہ الدین ’1344 ء تا 1360 ء ( 16 سال 2 ماہ)‘ سلطان شہاب الدین ’1360 ء تا 1378 ء ( 19 سال 3 ماہ)‘ سلطان قطب الدین ’1378 ء تا 1394 ( 16 سال)‘ سلطان سکندر بت شکن ’1394 ء تا 1417 ء ( 24 سال)‘ سلطان علی شاہ ’1417 ء تا 1423 ء ( 5 سال 9 ماہ)‘ سلطان زین العابدین بڈشاہ ’1423 ء تا 1474 ء ( 51 سال 2 ماہ)‘ سلطان حیدر شاہ ’1474 ء تا 1475 ء ( 1 سال 2 ماہ)‘ سلطان حسن شاہ ’1475 تا 1487 ء ( 12 سال 8 ماہ)‘ سلطان محمد شاہ ’1487 ء تا 1490 ء ( 2 سال 7 ماہ)‘ سلطان فتح شاہ ’1490 ء تا 1493 ء ( 2 سال 11 ماہ)‘ سلطان محمد شاہ (بار دوئم) ’1493 ء تا 1501 ء ( 8 سال 9 ماہ)‘ سلطان فتح شاہ (بار دوئم) ’1501 ء تا 1514 ء ( 14 سال 8 ماہ)‘ سلطان محمد شاہ (بار سوئم) 1514 ء ( 5 ماہ) ’سلطان فتح شاہ (بار سوئم)‘ 1514 ء تا 1517 ء ( 3 سال 4 ماہ) ’سلطان

محمد شاہ (بار چہارم) ’1517 ء تا 1527 ء ( 10 سال 8 ماہ)‘ سلطان ابراہیم ’1527 ء تا 1529 ء ( 1 سال 11 ماہ)‘ سلطان محمد شاہ (بار پنجم) 1529 ء تا 1537 ء ( 7 سال 9 ماہ) ’سلطان شمس الدین‘ 1537 ء تا 1538 ء ( 1 سال) ’سلطان اسمعیل شاہ‘ 1538 ء تا 1540 ء ( 1 سال 6 ماہ) ’سلطان ابراہیم شاہ ثانی‘ 1540 ( 4 ماہ) ’سلطان نازک شاہ‘ 1540 تا 1551 ء ( 10 سال 8 ماہ) ’سلطان اسمعیل شاہ ثانی‘ 1551 ء تا 1553 ء ( 3 سال) ’سلطان حبیب شاہ‘ 1553 ء تا 1554 ء ( 11 ماہ) ’سلطان غازی خان چک‘ 1554 ء تا 1563 ء ( 8 سال 10 ماہ) ’سلطان حسین خان چک‘ 1563 تا 1570 ( 6 سال 9 ماہ) سلطان علی شاہ چک ’1570 تا 1579 ( 8 سال 8 ماہ)‘ سلطان یوسف شاہ چک ’1579 ء تا 1580 ء ( 1 سال 1 ماہ)‘ سلطان سید مبارک بیہقی ’1580 ء ( 6 ماہ)‘ سلطان گوہر شاہ چک ’1580 ء تا 1581 ء ( 1 سال 1 ماہ)‘ سلطان شاہ چک (بار دوئم) 1581 ء تا 1585 ء ( 3 سال 10 ماہ) ’سلطان یعقوب شاہ چک ”۔ کشمیر کی تاریخ سے عیاں ہے کشمیر‘ کشمیریوں کا ہے اور رہے گا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post