کیا لوگ تھے!

کتابیں بہترین رہنما ہیں۔ کتابیں آپ کی بہترین دوست ہیں۔ آج ایک کتاب کیا لوگ تھے پڑھنے کا موقع میسر آیا ۔ یہ کتاب ہی نہیں ایک دستاویز بھی ہے۔ انسان اس وقت منزل مقصود تک بآسانی پہنچ جاتا ہے جب منزل کا صحیح راستہ معلوم ہو۔ آج ہمیں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ اپنے اسلاف کے کارہانمایاں کا علم ہونا ہے۔ جب ہمیں ان کے کارناموں ‘ کامیابیوں کا علم ہوگا تو ہم ان کے تقشے قدم پر چلنا اپنے لئے باعث ِ سعادت سمجھیں گئے۔ سعدیہ قریشی کی کتاب ’’کیا لوگ تھے‘‘ میں اُنہوں نے ایسی شخصیات کا ذکر کیا ہے جو واقعی قابلِ ذکر ہیں۔ایسی شخصیّات کسی تعارف کی محتاج نہیں اِن کی خوشبو دُنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہوتی ہے ‘بلکہ رَچ بس چکی ہوتی ہے۔ یہ خوشبوکسی جغرا فیا ئی حد بندی کی بھی پابند نہیں ہے۔لیکن ان شخصیات کا یہ خوبصورت پہلو شائد قا رئین کی نگا ہو ں سے مخفی ہوں یا یوں ایک کتاب کی صورت میں میسر نہ ہوں۔ آج اس اختصاص کے دور میں جبکہ ہمہ جہت شخصیّا ت کا وجود قریب قریب نا پید ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں سعدیہ قریشی کی کتاب کیا لوگ تھے ،ان شخصیات پر لکھا گیا جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب نوائے وقت ہے۔


کہا ں سوشیل میڈیا کی بے لگام خشک گتھیاں اور پر پیچ راہیں اور کہاں اصول وکردار کے درخشندہ ستارےجن میں مولانا عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سیّد علی گیلانی، نیلسن منڈیلا، بے نظیر بھٹّو، اسلم کولسری، نثار ناسک، اشتیاق احمد، افضل توصیف، ثمینہ راجا، جنید جمشید، دینا جناح ،مشتاق احمد یوسفی، قراۃ العین حیدر، ارشاد احمد حقّانی، گارشیا مارکیز، مُنو بھائی، انتظار حسین، محمّد طفیل، یاسین وٹو، بانو قدسیہ، دلیپ کمار، احمد فراز، ضیا محی الدّین، منیر نیازی، عبداللہ حسین، مسعود اشعر، امجد اسلام امجد، عارف نظامی، بلقیس ایدھی، طارق عزیز، بشریٰ رحمان، ڈاکٹر اجمل نیازی، نیّرہ نور، روحی بانو، ، شفیق مرزا، آزاد کوثری اور مظفّر محمّد علی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ان کی تحریر میں آورد کم آمد زیادہ تکلف کے بجائے بے ساختگی اور تخیل کی فروانی ہے۔ان کی کتاب میں زندگی کے حقائقٗ انفرادی و اجتماعی مسائل کی آگاہیٗ الفاظ کے علامتی و معنوی استعمالٗ موضوعاتی وسعت تاثیر کا حسن حیرت انگیز ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ سعدیہ قریشی اپنے عہد کے لکھاریوں میں ایک مستند اور معتبر حوالہ ہیں۔ ان کی کتاب کیا لوگ تھےٗ میں زبان وبیان کی چاشنیٗ لطف اندوزی کی گہرائی وگیرائی سے بھر پورٗ سلاستٗ فصاحت و بلاغت کی آئینہ دار ہے۔ انہوں نے ان ہیروز کی داستانوں کو نہایت دِل نشیں پیرائے میں بیان کیا۔ ان کی تحریریں اطراف و اکناف میں ہونے والے تمام تغیرات کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ان کی قلم سے لکھے گئے الفاظ شکستہ دلوں کی آوازٗصدائے قلب گداز ہونے کے ساتھ ہی اَدب میں ایک خوشگوار تازہ ہوا کا جھونکا اور بوئے عنبر ہے۔
بطورِطالب میری یہ رائے ہے کہ سعدیہ قریشی کی یہ کتاب ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔ ان کی کتاب ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ مرورِ ایام کی دبیزتہوں اور لیل و نہار کی ہزاروںگردشوں کے بعد چشم فلک نے ایسے عظیم انسان دیکھے‘جن کا رہن سہن‘ طور اطوار اور طرزِ بودوباش اسی طرح عام انسانوں کا سا ہوتا ‘جس کی مثالیں اسلاف نے قائم کی تھیں۔ شاہانہ کروفر سے دور‘ امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ سے پاک اور مسرفانہ و عیاشانہ طرزِزندگی سے نفور‘سارے وسائل انسانیت کی بھلائی کی نذر اور شب و روز کا ہر لمحہ ملک و ملت کی خدمت کے لئے وقف۔ انہوں نے فقیری میں بادشاہی کی‘غریبی میں خود داری کا مظاہرہ کیا‘تباہ حالی کے باوجود گدائی کا کاسہ اور کشکول نہیں اُٹھایا‘ کسی کے سامنے جھولی نہیں پھیلائی‘غیروں کی دریوزہ گری نہیں کی۔تاریخ بشری میں حالات کے ہاتھوں مجبور و مقہور ہو کر رستہ بدل لینے والوں کی مثالیں تو ممکن ہے ہر کتاب تاریخ کے ورق ورق پہ کنندہ مل جائیں مگر!!! ایسا بہت کم امثال ملیں گی کہ ایک بشر نے تاریخ کا دھارا پلٹتے ہوئے عہد ظلمت کو عہد انسانیت سے تبدیل کیا ہو۔
کیا لوگ تھے کتاب میں ایسی شخصیات ضرور نظر آتی ہیں جن کی بدولت ہم تا روز حشر سر اٹھا کر چلنے میں دقت محسوس نہ کریں گے۔ ایسی بے مثل و بے نظیر شخصیات جو اصلاب شامخہ و ارحام مطاہرہ میں پروان چڑھتے ہوئے اس دھرتی ماں پہ قدم رکھتی ہیں اور ایک دن انسانیت کو اپنی خوشبو سے معطر کرتے ہیں۔ اس کارگہہ حیات میں کتنے لوگ آتے ہیں۔ چلے جاتے ہیں۔ ازل تا ابد یہ سلسلہ جاری رہے گا مگر انہی لوگوں میں اللہ کے کچھ چنیدہ بندے بھی ہوتے ہیں جو اچھے کام کرنے کے لئے آتے ہیں۔ کام کرتے رہتے ہیں اور خلق ِ خدا کے دلوں پر رائج کرتے ہیں ۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ’’نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر ‘‘نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیرخون جگر کی تفسیر میں کہنے کو بہت کچھ ہے۔ مگر یہ ان لوگوں کے لئے کہا گیا جو اللہ اور اس کے حبیب کی رضا کے پابند ہوتے ہیں اور اپنے مقاصد اور نصب العین کو اسی صدقِ قلب سے ادا کرتے رہتے ہیں‘ ان کاشمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو کوشش کی ڈگر پر حق و صداقت کا پرچم لے کر اٹھے‘اوردُنیا کیا کہے گئی کو پس ِ پشت ڈال کر فرائض منصبی و خدمت ملی ادا کرتے ہیں۔ عرصہِ حیات تو ہے ہی مختصر‘ دیکھنا یہ ہے کہ کون کیا کرکے گیا۔ صرف اپنی ذات کو چاند تارے لگانا ہے یا انسانیت کی راہبری کرکے نئے راستے بناتا گیا۔ان کی پوری زندگی ایک کردار‘اصول‘ انصاف اوراعلیٰ ظرف عمل کی تصویر ہے۔ ان کا منصب صد قابل احترام‘مگر ان کی ذات سراپا سادگی اور عجز و انکساری ‘انسانی ہمدردی کا ایک بہترین‘تابناک نمونہ ہوا کرتی ہیں ۔ تربیتِ نفس اور صبر و تحمل ان کا طرہ ِ امتیاز نظر آتا ہے۔ رزق حلال کی لذت ہے۔ سچائی کی لگن ہے۔

اگر آپ بھی ان شخصیات کی زیست کو پڑھنا چاہتے ہیں تو کیا لوگ تھے کا مطالعہ ضرور کیجیے ۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post