”ژرف“

معروف شاعر‘ تعلیم دوست اور ملنسار دوست فرہاد احمد فگار سے شرف ملاقات حاصل ہوئی۔انہوں نے بہترین تحائف بصورت کتب عنایت فرمائیں۔ ان میں سے ایک عائشہ فاروق کی کتاب جو کہ کالموں کا مجموعہ ہے پڑھنے کا موقع ملا۔

یہ تصنیف مصنفہ کی تحاریر و تحقیقات کے اُردو کالمز کا بہترین مجموعہ ہے جسے ’ژرف‘ کے خوبصورت اور جامع نام سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں تحقیق وتخلیق کرنے والوں‘ بالخصوص طلبا کے لیے نایاب اور نا قابل تردید معلومات کو یکجا کیا گیا ہے۔اس کتاب میں چونکا دینے والے مضامین دلائل کے ساتھ قلمبند کئے گئے ہیں؛ جیسے آج کا مسلمان‘ استاد اور شاگرد کا رشتہ‘اللّہ کی ناراضگی ‘کھٹی میٹھی یادیں‘اخر سرکاری تعلیمی ادارے ہی ناکامی کا شکار کیوں؟ لاوارث اور دیگر نایاب عنوانات شامل کئے گئے ہیں۔

ایسے میں جب سوشیل میڈیا نے انسان کو کھلونا بنا دیا‘ کتابوں سے وہ تعلق نہیں رہا جو ہماری ضرورت ہے۔ایسے وقت میں اس قدر مدلل کالم لکھنا اور پھر اسے کتابی شکل میں قارئین کے لئے پیش کرنا یقیناً قابلِ ستائش ہے اور خصوصاً نسل ِ نو کی بہترین رہنمائی کی گئی ہے۔اس کتاب کی انفرادیت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ یہ کتاب جملہ سیاسی‘مذہبی‘مسلکی‘تفرقات سے پاک تحریروں کا مجموعہ ہے، اس کتاب کی خوبی یہ بھی ہے کہ اپنے والدین اور اساتذہ کرام کے نام کی گئی جو ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔

اس کتاب میں مصنفہ نے یہ عیاں کیا ہے کہ ہم من حاصل قوم کائنات کی ان محیرالعقول وسعتوں میں ہم محض ایک تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے بلکہ جدید اور اہم سائنسی انکشافات کو ہم قرآن کی روشنی میں پرکھ کر اپنے لئے ایک سمت کا تعین کرسکتے ہیں‘اور جہت کے ساتھ ہی اپنی پالیسوں‘ترجیحات‘زندگی کو بھی جدید تر کرنا ہوگا‘ قرآن جو روشنی اور حکمت کا سر چشمہ ہے‘ہمہ وقت ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔ مصنفہ نے اپنے وسیع مطالعے کی بدولت قارئین کو انتہائی اہم معلومات فراہم کی ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ آج کے جدید دور میں کئی سائنسی انکشافات ایسے ہیں جن کی وضاحت قرآن کی تعلیمات و معلومات کی روشنی میں ضروری ہو گئی ہے‘ تاکہ یہ حقیقت دورِ جدید کے سائنسدانوں پر واضح ہو جائے کہ آج وہ جن حقائق سے پردہ اٹھا رہے ہیں‘کتاب الٰہی چودہ سو برس پہلے ان کا بڑی صراحت سے اظہار کر چکی ہے مصنفہ نے دو قرآن کے عنوان سے ایک اہم پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ علاؤہ ازیں آج کا ایک اہم مسئلہ سرکاری تعلیمی اداروں کی ناکامی پر جو انہوں نے اظہارِ خیال کیا ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ اس کے علاؤہ طنز ایک بیماری  وغیرہ پر انتہائی مؤثر اور مدلّل انداز میں گفتگو کی ہے۔

مصنفہ نے بعض ایسے امور کی طرف دعوتِ فکر بھی دِی ہے جو اس سے پہلے نظروں سے اوجھل تھے۔

کتاب انسان کی غمخوار ومددگار‘انسانی ضمیر کو روشنی بخشنے والا قندیل‘ علم وآگہی‘ تنہائی کی جاں گسل طوالت کی بہترین رفیق‘ زندگی کی نا ہموار راہوں میں دلنواز ہم سفر اور اضطراب وبے چینی کی معالج بھی ہے۔ جب انسان گردشِ زمانہ‘ زندگی کے تلخ واقعات اور ذاتی مشکلات کے ہجوم میں الجھ کر مایوس لمحات کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے زندگی کی پرلطف نعمتوں سے بہرہ مند نہیں ہوپاتا تو اس وقت کتابی حروف کی سرگوشیاں سفید صفحات کے کالے پیلے نقوش اندھیروں میں روشنی لے کر ناامیدی میں امید کی کرن لے کر گم کردہ منزل کو راہیں سمجھاتی ہیں اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں آ جاتا ہے اور اس روشنی میں اپنی شخصیت کو سمجھنے لگتا ہے۔

میں طالب علموں سے گزارش کروں گا کہ ایسی کتابوں کا مطالعہ ضرور کریں اور اپنا کردار ادا کریں۔
 

Post a Comment

Previous Post Next Post