نئے صوبوں کا قیام ناگزیر کیوں؟



  پاکستان 1947ء میں وجود میں آیا تو اس کے پاس  محدود آبادی چھوٹے شہر اور کم انتظامی ڈھانچے تھے،مگر آج 24کروڑ سے زائد آبادی، بڑھتی ہوئی شہری ضروریات، وسائل پر دباؤ، ہر انتظامی اور علاقائی احساس محرومی نے اس ملک کو ایک نئے انتظامی ڈھانچے کی ضرورت پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے کہ چار صوبوں والا نظام اب ناکام ہو چکا لہٰذا مضبوط وفاق متوازن ترقی اور موثر حکمرانی کیلئے پاکستان کو زیادہ صوبوں میں تقسیم کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔موجودہ صوبے اتنے بڑے ہو چکے ہیں کہ ان کا نظم و نسق برقرار رکھنا مشکل ہے۔ پنجاب ملک کی نصب آبادی پر مشتمل ہے۔ لاہور سے راجن پور تک کا  فاصلہ سینکڑوں کلومیٹر کا ہے، مگر فیصلے ایک ہی مرکزسے ہوتے ہیں (اگر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنایا جائے تو عوامی مسائل مقامی سطح پر حل ہوں گے اسی طرح خیبرپختونخوا میں ہزارہ اور فاٹا کے علاقے اپنی انتظامی پہچان کے منتظر ہیں، چھوٹے صوبے بننے سے حکومتی فیصلے تیز، شفاف اور نتیجہ خیز ہوں گے۔

وسائل کی تقسیم ہمیشہ تنازعات کا باعث رہی ہے پانی، گیس، بجلی، معدنیات اور ترقیاتی فنڈز چند بڑے شہروں تک محدود ہو جاتے ہیں نئے صوبے بننے سے ہر علاقے کو اپنا بجٹ، منصوبہ بندی اور وسائل پر کنٹرول ملے گا۔اس طرح و سائل مرکز کی بجائے عوام کے قریب پہنچیں گے اور محروم خطے ترقی کی دوڑ میں شامل ہوں گے۔جب اقتدار اور انتظام عوام کے قریب ہوں گے تو جمہوریت مضبوط ہو گی زیادہ صوبوں کا مطلب زیادہ صوبائی اسمبلیاں، زیادہ نمائندگی اور زیادہ سیاسی شرکت، اس سے نہ صرف مقامی قیادت کو ابھرنے کا موقع ملے گا۔ بلکہ مرکز پر سیاسی دباؤ بھی کم ہو گا۔

پاکستان کی بنیاد صرف مذہب پر نہیں بلکہ ایک وفاقی ڈھانچے پر بھی رکھی گئی تھی۔ جہاں مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو اپنی پہچان ملے۔ جب کوئی صوبہ بہت وسیع ہو تو اُس کے دور دراز اضلاع یا علاقے محسوس کرتے ہیں کہ وہ مرکز سے محروم ہیں۔ بنیادی سہولتیں میسر نہیں، ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر۔ صوبائی حکومت کی توجہ محدود علاقے تک ہوتی ہے، اس تناظر میں صوبے کو تقسیم کرنا ایک جواب ہو سکتا ہے،تاکہ انتظامی نظام کو قریب لایا جائے اور مقامی شمولیت کو فروغ دیا جائے۔مثلاً اگر پنجاب کو چار صوبوں میں تقسیم کیا جائے تو سرائیکی، پوٹھو ہاری، ملتان۔ پنجاب وسطی وغیرہ کے علاقوں کو اپنی پہچان اور ترجیحی وسائل مل سکتے ہیں،اسی طرح سندھ کے دو صوبے،خیبرپختونخوا کے دو صوبے،بلوچستان کے دو صوبے اور فاٹا، قبائلی علاقوں پر مشتمل ایک صوبہ،گلگت بلتستان ایک صوبہ میری سوچ کے مطابق ابتدائی طور پر پاکستان میں 12صوبے بنانے کی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے،ہر صوبے کو وفاق سے آنے والے بجٹ اور ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں اگر صوبے کم اور بہت بڑ ے ہوں تو تقسیم وسائل  میں عدم توازن اور مرکزیت کا امکان بڑھ جاتا ہے چھوٹے صوبے،اپنی رائے اور مطالبہ زیادہ موثر انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔مثال کے طور پر بلوچستان کا رقبہ بہت وسیع مگر آبادی کم ہے اور اسے وفاق سے کم وسائل ملتے ہیں،اگر بلوچستان کو چند صوبوں میں تقسیم کیا جائے تو ہر نئے صوبے کو زیادہ توجہ ملے گی اور مقامی منصوبہ بندی بہتر ہو سکے گی۔

پاکستان کے بعض خطے خصوصاً سرحدی اور قبائلی علاقے سیکورٹی کے لحاظ سے حساس ہیں، اگر وہ ایک بہت بڑے صوبے کا حصہ ہوں تو وہاں کی مخصوص ضروریات (مثلاً پولسینگ،انسدادِ دہشت گردی، ترقیاتی رسائی پر غور کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چھوٹے صوبے بننے سے ایک صوبائی حکومت مخصوص علاقوں کے مسائل کو مخصوص حکمت عملی کے ساتھ سنبھال سکتی ہے۔ مزید  یہ کہ انتظامی اختیارات کا مقامی انتقال ممکن ہو گا۔ یعنی مقامی حکومتیں اور صوبائی انتظامیہ جغرافیائی طور پر قریب ہوں گی، جس سے فوری کارروائی ممکن ہو سکتی ہے، لوگ جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں۔ بہت سی صورتوں میں وہ صوبائی دارالحکومت یا انتظامی دفاتر تک پہنچنے میں وقت محسوس کرتے ہیں،اگر چھوٹے صوبے ہو ں تو سرکاری دفاتر قریب ہوں گے۔ درخواست، محکمہ جاتی تعلقات، شکایات اور نگرانی آسان ہوگی، نئے صوبے بننے سے وہاں کے منتخب نمائندے۔اسمبلی،وزیرا علیٰ، کا بینہ زیادہ متوازن ہوں گی اور ہر علاقے کو اپنی آواز ملے گی۔ اس سے عوام کا اعتماد بھی بڑھے گا کہ ان کے مسائل کو مقامی سطح پر حل کیا جائے گا۔ نہ کہ دور کے مرکز سے فیصلہ ہو۔

وفاقی اور صوبائی فنڈ، ترقیاتی پالیسی ترقیاتی  پروگرام نئے صوبوں میں بہتر منصفانہ انداز میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ مرکز اور بڑے صوبے بعض مخصوص علاقوں کو ترجیح دیتے ہیں،مگر نئے صوبے اپنے  فنڈز تقسیم خود کر سکتے ہیں۔ ہر صوبہ اپنی جغرافیائی، معاشی، ثقافتی اور ماحولیاتی خصوصیات رکھتا ہے۔ایک صوبہ ایک کثیر النوع پالیسی نہیں بنا سکتا جو تمام علاقوں کے لئے موزوں ہو، اگر صوبے چھوٹے ہوں  تو وہ مخصوص پالیسی بنا سکتے ہیں۔ جیسے پہاڑی علاقوں کیلئے صحرا  ئی  علاقوں کیلئے ساحلی علاقوں کے لئے،  پرانے نظام میں وسائل، ترقی اور مراعات عموماً بڑے شہروں اور صوبائی مراکز تک محدود رہ  جاتے ہیں۔ نئے صوبے بننے سے مرکزیت کم ہوگی اور دور دراز علاقوں کو بیشمار ترقی کے مواقعے فراہم ہوں گے۔

چھوٹے انتظامی ڈھانچے میں بیورو کریسی کم ہوگی۔ فیصلہ سازی تیز ہوگی۔ ہر صوبہ مختص  شدہ اہداف پر توجہ مرکوز کر سکتا ہے مثلاً صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر وغیرہ اور ان کے مطابق بجٹ سازی کر سکتا ہے۔نئے صوبے بنانے یا تقسیم کا عمل آئینی ترمیم کا تقاضا کرتا ہے،آئین پاکستان کی دفعہ 239ماضی میں اس کی رکاوٹ بنی رہی ہے کہ کسی صوبے سے نیا صوبہ نکالنا تقریباً ناممکن ہے مزیدیہ کہ نئے صوبے  بنانے کا فیصلہ  سیاسی مفروضے کا متقاضی ہو گا، صوبائی اسمبلیوں کی رضا مندی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی منظوری اور صدر کی منظوری درکار ہو گی۔بعض سیاسی جماعتیں بڑے صوبوں کے مفادات کو بچانا چاہیں گی، کیونکہ بڑے صوبوں میں زیادہ مضبوط ہیں۔ اگر نئے صوبے صرف سرکاری دفاتر کی سطح پر بن جائیں مگر بنیادی ڈھانچہ سٹرکیں۔ بجلی، پانی صحت، تعلیم نہ ہو تو یہ صوبہ محض نام کی صورت ہو گا۔اس لیے تقسیم کے ساتھ ساتھ ترقیاتی منصوبے بھی لازماً پہلے سے طے ہونا چاہئیں۔

کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ کہ زیادہ صوبے وفاق کو کمزور کر دیں گے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وفاق تب مضبوط ہوتا ہے۔ جب تمام اکائیاں مطمئن ہوں، نئے صوبے عوام کو فیصلہ سازی میں شریک کریں گے۔ احساس شراکت بڑھے گا۔ اور علیحدگی کی آوازیں دم توڑ جائیں گی۔

پاکستان میں بڑھتی آبادی، ناکام گورننس، سیاسی کشمکش اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا واحد حل نیا صوبائی ڈھانچہ ہے۔  میری ناقص رائے میں بارہ صوبوں پر مشتمل پاکستان صرف انتظامی طور پر نہیں بلکہ سیاسی و معاشی لحاظ سے بھی زیادہ مضبوط، منصف اور متوازن ملک بنے گا۔ یہ اصلاح وقت کی پکار ہے! اگر آج فیصلہ کر لیا جائے تو آنے والی نسلیں ایک منظم، ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان دیکھیں گئی۔ آمین انشاء  اللہ

٭٭٭٭٭

Post a Comment

Previous Post Next Post