*تبصرہ کتاب: سیاست کا جغرافیہ(طنز و مزاح)

 *تبصرہ کتاب: سیاست کا جغرافیہ(طنز و مزاح)

عابد ہاشمی، مصنف مقصد حیات 

وہ بلند عزم اور باہمت افراد جو اپنی کدال سے اپنا راستہ خود تراشتے ہیں، اور اپنا زمانہ بھی آپ ہی بناتے ہیں۔ وہ عظیم افراد قابلِ ذکر اور قابلِ محبت ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ تقلید بھی ہوا کرتے ہیں۔ ایسی ہی عہد ساز شخصیات میں ایک نمایاں نام امجد محمود چستی کا بھی ہے۔ اس مردجہد آزمانے عزم و ہمت کو اپنا زادراہ بنا کر اصلاح معاشرے کا آغاز اور آج محنت، صلاحیت اور لگن کی بدولت پاکستان کے صحافتی افق پر درخشندہ ستارے کیطرح چمک رہا ہے۔ان کے کالم ایسی تحریر ہوتی ہے کہ قاری کے دل و دماغ پر اثرات پڑے بغیر رہ نہیں سکتا، وہ سمندر کو کوزے میں بند کرنا خوب اچھی طرح جانتے ہیں، طنز و مزاح نگار، بہترین معیار کے کالم نگاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ 

جناب کی کئی بہترین کتب شائع ہو چکی ہیں، ان میں سے ایک راقم الحروف کو بطورِ ہدیہ پیش کی گئی، جس میں وہ تمام سیاسی عوامل شام کئے گئے ہیں، جو یقیناً نوائے وقت ہیں، انہوں نے عوام کی مشکلات کو نہ صرف سمجھا بلکہ محسوس بھی کیا ہے۔ کتاب کا نام سیاست کا جغرافیہ ہے۔ کتاب کا مواد بڑا معلوماتی، ہر کشش اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ مصنف نے حقائق اور سچائی سے قلم کی حرمت سے تقدس قائم رکھا ہے۔ کسی بھی رنجش و ناراضگی کی پرواہ نہیں کی، کتاب محاسن اور تحریروں کو لڑی میں پرونا ان جیسے اعلیٰ ظرف لوگوں کا کام ہے۔ آپ کی تحریروں کے بے شمار روشن اور تابناک پہلو ہیں۔ کتاب ایک یاد گار ہوتی ہے اور مصنف کی شخصیت، خیالات اور دور اندیشی کا منظر بھی۔

یوں تو ان کی کتاب حرف حرف موتی ہے لیکن انتساب میں ہی وہ پیغام ہے جو عوام کی فکری سوچ کو اجاگر کرنے کے لئے کلیدی کردار کا حامل ہے، لکھتے ہیں "انتساب بات بات پر ڈٹ جانے والی ثابت قدم عوام کے نام جن کے افکار، خیالات اور افعال کو کوئی ماں کا لعل بدلنے کی جرات رکھتا ہے اور نہ انہیں دانش استعمال کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ کیونکہ بقول شخصے، قدرت نے ہر " بڑے" کے حصے کے بے شمار بےوقوف پیدا کر رکھے ہیں"

اس کے علاؤہ مسکرانا بھی اک اذیت ہے، جمہوریت کا موسم، آمریت کے موسم، الیکشن کے موسم، دھرنوں کے موسم، قرضوں کے موسم، موروثی سیاست، تبدیلی سیاست، روحانی سیاست، تشہیری سیاست، خیالی سیاست اور احتسابی سیاست سمیت ایسے دلچسپ اور سبق آموز تحریروں کو بحسن وخوبی قلمبند کیا، جو نہ صرف دلچسپی کا مرکز ہیں بلکہ وہ معاشرتی حقائق ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔

میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر نوجوان نسل اس کتاب کا مطالعہ کر لیں تو جو ان کے ساتھ کئی دہائیوں سے سلوک کیا جاتا ہے وہ اسے بآسانی سمجھ سکتے ہیں، اور انت والے وقت بھی بہترین منصوبہ بندی کرنے کے قابل ہوسکیں گے ۔

 صد شکر کہ ویران اور تاریک صحافتی منظر نامے میں کہیں تو کوئی روشنی کی کرن، امید کی لو، آرزو کا دیا اور اس کا تارا ہے جو چمک رہا ہے، دمک رہا ہے، توانائیوں اور رعنائیوں سے بھرے مصلحت ناآشنا امجد محمود علم و ادب، فکر ودانش کی محفلوں کے چراغ ہیں، ان کا وجود ایک روشن تاریخ ہے۔ 
راقم الحروف نے ان کی اس عظیم الشان کاوش کو عوام بالخصوص نسل نو کے نام پیغام لکھ کر ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے۔ اگرچہ یہ ایک ادھوری، نامکمل اور ابتدائی کوشش ہے۔ 
ان کا کتاب کا مقصد و مدعا الفاظ کی دکان سجا کر عوام کے لئے چٹ پٹا مواد فراہم کرنا نہیں بلکہ نوجوان نسل کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ محنت، لگن اور شوق کے ساتھ جدوجہد کریں تو وہ ایک کامیاب انسان بن سکتے ہیں۔ ان کی راہ میں نوکیلے کانٹوں کی چھبن برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگا جس کے نیتجے میں منزل آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرنے پر مجبور ہوگی ان شاءاللہ تعالیٰ

یہ کتاب اپنے دامن میں بے پناہ ناقابل تردید سچائیاں، سربستہ راز، ان کہی کہانیاں اور بے رحمی حقائق لئے ہوئے ہے۔  
دراصل یہی کتابیں نسل نو کا مستقبل سنوارنے کی بہترین مثال ہیں، لیکن نہ تو نسل نو کو ایسی ناقابل فراموش خدمات کی اہمیت کا اندازہ ہے اور نہ ہی ہمارے میڈیا کو ایسے مواد سے غرض ہے جس میں ایک پیغام ہو جو نسل نو کی اصلاح احوال کا موجب بنے، ہمیں سیاسی، تنقید برائے تنقید سے فرصت نہیں کہ ایسی نایاب کتابوں کا مطالعہ کرسکیں۔

میری نوجوان نسل سے یہی امید ہے کہ وہ ایسی کتاب کا مطالعہ کرکے اپنے کل جو روشن کریں گے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post