ڈاکٹر عتیق الرحمن
ڈائریکٹر، کشمیر انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس، آزاد
جموں و کشمیر یونیورسٹی
آج کل یہ تبصرہ بیشمار لوگوں کی زبان پر ہے کہ
بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل گیا، حالانکہ جب بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا، وہاں غربت
وافلاس ہم سے کہیں زیادہ تھا۔ اس انقلاب میں ایک بڑا کردار ڈاکٹر محمد یونس کا ہے۔
ڈاکٹر یونس نے 1976 میں اپنی جیب سے غریب خواتین کے لئے ایک انکم سپورٹ پروگرام
شروع کیا۔ اس سکیم کے تحت ڈاکٹر یونس نے غریب ترین خواتین کو کاروبار کے لئے قرض دینا
شروع کیا۔ ان چھوٹے قرضوں نے خواتین کی حالت بدلنا شروع کر دی۔ یہ قرضے خواتین کو
مستقل زریعہ روزگار کا موقع فراہم کرتے۔ قرضوں کی واپسی کی شرح حیران کن طور پر
بلند تھی، قرضوں کی واپسی کی شرح 99.6 فیصد سے زیادہ تھی۔ ڈاکٹر یونس اپنے پروگرام
سے استفادہ کرنے والی خواتین سے کچھ وعدے لیتا، مثلا یہ کہ وہ اپنے بچوں کو سکول
بھیجیں گی۔
1983 میں ڈاکٹر یونس کی یہ
مائیکرو فائنانس سکیم گرامین بینک کی شکل اختیار کر گئی اور یہ نیٹ ورک پھیلتے پھیلتے
بنگلہ دیش کے 98 فیصد دیہاتوں تک پھیل گیا، جو اب دنیا کے کئی ممالک تک پھیل چکا
ہے۔ 2006 میں ڈاکٹر یونس اور ان کی دماغی اختراع گرامین بینک نے مشترکہ طور پر دنیا
کا سب سے بڑا انعام حاصل کیا۔
گرامین بینک کی دیکھا دیکھی بنگلہ دیش میں کئی
دیگر غیر سرکاری سماجی تنظیموں نے کام شروع کیا جن میں سے ایک براک BRAC ہے، جو اس وقت دنیا کی
سب سے بڑی غیر سرکاری سماجی تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ براک نے بھی چھوٹے قرضوں یعنی
مائیکرو فائنانس پر بھرپور توجہ دی۔ بنگلہ دیش میں اس وقت سماجی تنظیموں کا سب سے
بڑا نیٹ ورک موجود ہے۔
ڈاکٹر یونس کا پروگرام اور اس کے بعد دیگر غیر
سرکاری تنظیموں کے مائیکرو فائنانس پروگرام دراصل
انکم سپورٹ پروگرام تھے۔ یہ پروگرام لوگوں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنے لئے
آمدنی کا مستقل زریعہ تیار کریں۔ عوام نے اس موقع سے صحیح فائدہ اٹھایا، اور شہر دیہات
سبھی اس سکیم سے مستفید ہوئے، جس کی وجہ سے آمدن میں اضافہ ہوا اور غربت میں کمی
ہوئی۔ آخرکار بنگلہ دیش ترقی کی دوڑ میں
پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر کہیں آگے نکل گیا۔
انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے پاکستان میں بھی
غریبوں کی مدد کے لئے پروگرام شروع کئے گئے، لیکن یہ دراصل انکم سپورٹ پروگرام نہیں
تھے، بلکہ کنزمپشن سپورٹ پروگرام consumption support
programs تھے۔ ان سکیموں میں لوگوں
کو کوئی ہنر سکھانے یا کوئی زریعہ امدن بنانے کی بجائے انہیں گھریلو اخراجات کے
لئے رقم دی جاتی رہی۔ چنانچہ میرے نزدیک ان کو انکم سپورٹ پروگرام کا نام دینا ہی
غلط تھا۔
مثل مشہور ہے کہ کسی کو مچھلی پکڑ کر دینے سے
بہت بہتر ہے کہ اسے مچھلی کا شکار سکھا دیا جائے۔ مچھلی پکڑ کر آپ کسی کو ایک وقت
کیلئے فائدہ دے سکتے ہیں اور اگلے کھانے کے لیے وہ پھر کسی کا محتاج ہوگا۔ مچھلی
کا شکار سکھا کر اپ کسی کو مستقل طور پر خود پر انحصار کرنا سکھا سکتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہونے والا
یہ پروگرام ابھی تک لوگوں کو خود انحصاری نہیں سکھا سکا، اور نہ سکھا سکتا ہے۔
موجودہ کنزمپشن سپورٹ پروگرام کو آسانی سے انکم
سپورٹ پروگرام میں بدلا جا سکتا ہے۔ پروگرام سے استفادہ کرنے والے کوئی نہ کوئی
ہنر تو رکھتے ہی ہیں۔ کوئی کھیتی باڑی جانتا ہے، کوئی مستری مزدور کا کام کر سکتا
ہے، کوئی ڈرائیونگ کا ہنر جانتا ہے۔ انہیں ایک بار اپنا کاروبار شروع کروا کر
آئندہ کی امداد کو ان کے کاروبار کی پیداوار کے ساتھ مشروط کر دیا جائے۔ مثلا سابق
وزیراعظم کی مرغی انڈا سکیم کا احیاء کرتے ہوئے دیہاتی خواتین کو مرغیاں خرید کر دے
دیجئے، اور ان کی آئندہ کی امداد کو ان مرغیوں کی پیداوار کے ساتھ مشروط کر دیں۔
حکومت خواتین کو مارکیٹ کے بے رحم نظام کے ظلم سے بچانے کیلئے ان سے یہ تعاون
کرسکتی ہے کہ وہ ان کی پیداوار کو ایڈوانس میں خریدنے کا معاہدہ کر لے۔ اس معاہدہ
میں اگر حکومت کو مارکیٹ سے زیادہ نرخ دینے پڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ
امداد لوگوں کو خود انحصاری کی طرف لے کر جائے گی۔
اسی طرح انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے
والے ہر فرد کو اس کی صلاحیت کے مطابق کاروبار شروع کرنے کیلئے تکنیکی اور مالی
امداد فراہم کی جائے اور ان لوگوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ان کے ساتھ پیداوار کی
خرید کا معاہدہ کر لیا جائے۔ یہ پروگرام رفتہ رفتہ لوگوں کو امداد لینے والوں کی
فہرست سے نکال کر امداد دینے والوں کی فہرست میں شامل کرنے کا سبب بنے گا۔ وگرنہ
پچھلے پندرہ سالوں میں ان نام نہاد انکم سپورٹ سکیموں سے عوام کی حالت بدل نہیں سکی اور نہ آئندہ اس میں تبدیلی کا کوئی امکان ہے۔
یہ انکم سپورٹ پروگرام ان اشیاء کی پیداوار کے
لئے مفید ہو سکتے ہیں جن کی ملکی معیشت کو ضرورت ہے لیکن فی الحال ان کی پیداوار
مناسب مقدار میں موجود نہیں۔ مثلاً خوردنی تیل کی درآمد پر زرمبادلہ کی کثیر مقدار
خرچ ہوتی ہے حالانکہ ملک میں خوردنی تیل کی پیداوار ممکن ہے۔ تو ایسے لوگ جن کے
پاس زمین کے چھوٹے ٹکڑے ہیں جن پر کوئی فصل کاشت نہیں ہوتی، تو عوام کو یہاں خوردنی
تیل کی پیداوار کے لئے تکنیکی اور مالی امداد دی جائے اور ان کو معاھدہ کے زریعے یقین
دلایا جائے کہ ان کی پیداوار خرید لی جائے گی۔ مستقبل کی مالی امداد کو اس پیداوار
کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔ یہ درحقیقت ایک انکم سپورٹ پروگرام ہوگا جو لوگوں کی
انکم بڑھا کر غربت سے نکالے گا اور خود انحصار بنائے گا
