عابد ضمیر ہاشمی کے موضوعات متنوع ہیں۔ پوری مسلم تاریخ کے تناظر میں وہ بات کرتے ہیں۔ بالعموم مگر پاکستان، بھارت، کشمیر اورامت مسلمہ کے باب میں۔ اکثر اخبار نویسوں کے برعکس ان کی معلومات وسیع ہیں۔ مطالعہ شعار ہے۔ سی ایس ایس کا کوئی بھی طالبِ علم اس کتاب کو مفید پائے گا؛البتہ یہ مضامین ہیں، کالم نہیں۔
تحریر وہ زندہ رہتی ہے، جو اسلوب اور سانچے میں ڈھلی ہو۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا:
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
اور شاعر وں کے شاعر اقبالؔ کا فرمان یہ ہے:
بلبلِ شوریدہ نغمہ ہے ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
انہماک، احساس اور شعور عابد ضمیر ہاشمی میں ضرور کارفرما ہے۔ میں انہیں ادب عالیہ کے مطالعے کا مشورہ دیتا ہوں۔ لکھنے والے کو اسلوب زندہ رکھتا ہے۔ میرؔ صاحب ہی کا ارشاد ہے:
گل ہو مہتاب ہو آئینہ ہو خورشید ہو میرؔ
اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو
سرکارؐ سے منسوب ہے: فصاحت مرد کا زیور ہے۔
