تحریک آزادی کشمیر اور یکجہتی کی اہمیت!









یونیورسٹی آف آزاد جموں وکشمیر مظفر آباد ”تحریک آزادی کشمیر کے موجودہ تناظر میں یوم یکجہتی کی اہمیت“ کے عنوان سے منعقدہ عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ منعقدہ عظیم الشان سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کی جدوجہد میں غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔ سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) سید منظور حسین گیلانی ’وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد کلیم عباسی‘ امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر و گلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق ’ایڈیشنل چیف سیکرٹری آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر‘ محترمہ مدحت شہزاد ’سینٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز (CISS) آزاد کشمیر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ‘ ایڈیشنل رجسٹرار ’جامعہ کشمیر‘ سردار ظفر اقبال ان نمایاں آوازوں میں شامل تھے جنہوں نے کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد میں ان کے انتھک جذبے کو سراہا۔ سیمینار کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا۔ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد وادی کشمیر میں ظلم و بربریت کی داستان بطور ڈاکومنٹری پیش کی گئی جو کہ الماس گردیزی صاحب کی شاندار کاوش سے تیار کی گئی۔ جس نے بھارتی سفاکی کی انتہا کو بے نقاب کیا اور جملہ شرکاء کے دل چھلنی کیے ۔

اس کے بعد ڈاکٹر عاصمہ خواجہ نے اپنے خطاب میں بتایا کہ وہ یہ ڈاکومنٹری دیکھنے کے بعد اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھی سکتی ’یہ نہیں ہو سکتا کہ جن پر ظلم و ستم ہوا ہو وہی متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس کے اثرات کئی نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں۔ ہمیں کشمیر کی آواز بننا ہو گا، ہمارا سوشل میڈیا اس سب میں ایک اہم ہتھیار ہے ہمیں مظلوم کشمیر کی آواز دنیا تک پہنچانے کے لئے اپنے سوشل میڈیا کا مثبت اور مدلل استعمال کرنا ہو گا۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کی مذمت کرتے ہوئے سوشل میڈیا اور وکالت کے ذریعے مظلوموں کی آواز کو بلند کرنے کے لیے متحد ہونے کا مطالبہ کیا۔

ڈاکٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ ہم سب کو کشمیر کے ایشو پر ایک پلیٹ فارم پر انا چاہیے۔ جس دھرتی پر شہدا کا لہو گرا ہو وہ آزادی کی نعمت ضرور حاصل کرتی ہے۔ ہمارے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے عقل سے نوازا۔ اس کا استعمال بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے انسانوں اور جنوں کی ایک بڑی تعداد کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ یا مولائے قدوس آپ رحیم و کریم ہیں پھر ایسا کیوں؟ فرمایا : ”کہ ہم نے انہیں عقل دی مگر وہ سوچتے نہیں، ہم نے انہیں کان دیے مگر وہ سنتے نہیں، ہم نے انہیں آنکھیں دیں مگر وہ دیکھتے نہیں، سن کی مثال چوپائیوں کی سی ہے بلکہ اس سے بھی بدتر۔ انہوں نے بہترین انداز میں تقریر کی جس پر تمام سامعین متاثر ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بہترین تجاویز بھی پیش کیں۔

محترمہ مدحت شہزاد نے کہا کہ ہم کشمیر سے ہی ہیں، وہ درد کی داستان الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج بھی کشمیری پاکستانی پرچموں میں دفن ہوتے ہیں۔ علی گیلانی پاکستان ہمارا ہے اور ہم پاکستانی ہیں کہتے کہتے دنیا سے الوداع ہوئے۔ کشمیر کی تجارت کا آغاز میری منڈی ’تمہاری منڈی‘ راول پنڈی ’راول پنڈی سے ہوتا ہے۔ قائد اعظم نے بھی کہا کشمیر‘ پاکستان کی شہ رگ ہے۔ 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر جس طرح منایا جاتا ہے یہ تہوار بن جائے گا کہ جہاں جہاں کشمیر پاکستان کو ملانے والی جگہیں ہیں ’وہاں انسانی ہاتھوں سے زنجیریں بنائی جاتی ہیں۔ ان نے مزید کہا کہ قلم تلوار سے بھی طاقتور ہے سے بھی آگے اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اس کا استعمال کشمیری قوم کی آواز اٹھانی ہوگی، نئے مقالہ جات، کتابیں لکھیں گے تو دینا کو باور کروا سکیں گے کہ ہم بھی ایک منقسم علاقہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمیں بھی حق چاہیے جو پوری دنیا کو ملتا ہے۔

ان کی پر معز اور مدلل تقریر نے سب کو غمگین کر دیا۔ بھارت کی سفاکی آج کی بات نہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ وادی کشمیر میں تاریخ کا بدترین سلوک جاری ہے اور اقوام عالم خاموش ہے۔

جسٹس منظور حسین گیلانی نے ہمیشہ کی طرح تلخ حقیقت بتاتے ہوئے کہا کہ بھارت مکار ہے اس نے بڑی چالاکی سے یہ مقدمہ چلایا ہوا ہے ہمیں اس کے مقابلہ کے لئے اس کی طرز کا اقدام کرنا ہو گا ہمیں اپنے بچوں کو آئی ٹی کے شعبہ میں اس مقام تک پہنچائے بنا یہ سفر ادھورا ہے۔ صرف نعروں ’جذبات سے منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے یوم یکجہتی کشمیر کی مسلسل گونج کو اجاگر کرتے ہوئے عالمی آزادی کی جدوجہد کے متوازی تحریک آزادی کشمیر کی پائیدار نوعیت پر زور دیا۔ انہوں نے زبردستی بھارتی ہتھکنڈوں کے مقابلے میں کشمیریوں کی ہمت اور لچک کو سراہتے ہوئے جدید حکمت عملیوں اور تعلیم کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیا۔

آخر میں جناب وائس چانسلر نے بتایا کہ ان کے عرصہ میں ایسے پروگرامات منعقد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نسل نو اس آزادی کی شمع کو بجھنے نہ دے ’کشمیر کے ساتھ ہی اور کئی تحاریک تھیں ان کا نام و نشان نہیں رہا، لیکن وادی کی تحریک آج بھی زندہ ہے اور آزادی کی نعمت ملنے تک زندہ رہے گی، اس کی بنیاد وجہ اس کی آواز میں شہدا کا لہو، اور ایسے سیمینار، یک جہتی کے پروگرامات ہیں۔ نسل نو کو کشمیر کی مکمل تفصیل کا علم ہونا چاہیے‘ وہ ہمیشہ ایسے مقررین کو دعوت دیتے ہیں جو نسل نو کو منزل تک پہچانے میں اہم کردار ادا کرتے۔

انہوں نے بتایا کہ مسئلہ کشمیر ہر دلائل کے ساتھ اقوام عالم کو بتایا جائے تو کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت اپنی مکاری کے باوجود شکست فاحش سے دوچار نہ ہو۔ ہمارے پاس بیرون ممالک بہترین سفیر موجود ہیں۔ انہوں نے کشمیر کی جدوجہد کے تاریخی تناظر کو اجاگر کرتے ہوئے اس کے عوام کے ناقابل تسخیر جذبے اور مصروفیت اور بیداری کے ذریعے آزادی کے شعلے کو پروان چڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے نوجوانوں کو کشمیر کے منصفانہ مقصد کی وکالت کرنے کے لیے با اختیار بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی تجویز پیش کی، یونیورسٹی کے پلیٹ فارم کو بات چیت اور عمل کے لیے پیش کیا۔

سیمینار کا اختتام مقبوضہ کشمیر پر ایک دستاویزی پریزنٹیشن کے ساتھ ہوا، جس میں پرنسپل آفیسرز، ڈینز، فیکلٹی اور طلباء پر مشتمل حاضرین سے داد وصول کی گئی۔ جملہ مہمانان گرامی نے جامعہ کشمیر کے وائس چانسلر جناب کلیم عباسی کی اس کاوش کو سراہا اور کہا کہ جامعہ کشمیر نے ان کے دورانیہ میں ہمیشہ ایسے پروگرامات کا انعقاد کیا جو قابل ستائش ہے۔
 

Post a Comment

Previous Post Next Post