شہرت اور اہمیت کے لحاظ سے کرشن، بیدی، عصمت، حیات اللہ اور منٹو کے کارناموں پر نگاہ جاتی ہے، جن میں سے ہر ایک نے فکر و فن، موضوع و مواد اور انداز بیان پر قدرت حاصل کر کے اس میدان کو وسیع کیا جو پریم چند چھوڑ گئے تھے۔ منٹو کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا گیا ہے :
” منٹو کا فنی شعور غالبا افسانہ ن
ویسی کے لئے سب سے زیادہ موزوں تھا۔ اس میں ایک طرح کا فطری بہاؤ اور ایک قسم کی زبردست آمد تھی۔ ان کے افسانے پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ بغیر زیادہ کاوش کے وجود میں آ گئے ہیں۔ ان کے افسانوں کا ڈرامائی اختتام خاص طور سے متوجہ کرتا ہے۔ ان کے متعدد افسانے اس عہد کی افسانہ نویسی کا لازوال سرمایہ ہیں۔“تقسیم ہند سے قبل ہی سعادت حسن منٹو نے کہانیاں اور افسانے لکھنا شروع کر دیے تھے جن میں ممبئی میں فلموں کے لیے کہانیاں بھی شامل تھیں۔ ان میں کیچڑ، اپنی نگریا، بیگم، نوکر، چل چل رے نوجوان، گھمنڈی، بیلی، آٹھ دن، آغوش، مجھے پاپی کہو اور دوسری کوٹھی قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے دو فلموں میں کام بھی کیا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد وہ لاہور منتقل ہو گئے اور اس دوران بھی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔
ترقی پسند اردو نثر کے پچاس سال میں ڈاکٹر جمال نقوی لکھتے ہیں : ”منٹو نے ترقی پسند تحریک کی فروغ دی ہوئی انسان دوستی کو ہمیشہ مد نظر رکھا ہے اور ان کے فن کے تابندہ نقوش میں انسانی آدرشوں کی روشنی ملتی ہے۔ اس دائرے میں منٹو آزاد خیالی اور پاکستانی قومیت کے خطوط بھی کھینچے ہیں۔ منٹو پہلی دلچسپی انسان کی ذات سے ہے، اس لیے کردار کے افسانوں میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ حقیقتوں کے ادراک سے ان کی قوت بیان کو فروغ ملتا ہے۔
منٹو نے اپنے دور کے منافقانہ رویوں، جبر کی ذہنی اور عملی صورتوں اور استحصالی قوتوں کے خلاف پر زور احتجاج کیا ہے۔ منٹو کا مقصد زندگی کی نئی ترتیب ہے، چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ منٹو نے اظہار کی صلاحیت باقی رہنے تک آشوب آگہی سے واسط رکھا ہے۔ منٹو کے فن کی غالب خصوصیت اس کی معروضیت ہے۔ منٹو کا مقصد فن کو انتشاری تاریکی میں دھکیلنا نہیں ہے بلکہ زندگی کے انتشار اور تاریکی سے نئے معنی اخذ کرنا ہے۔ منٹو جس آزادی افکار اور آزادی اظہار کے علم بردار تھے اس نے بحیثیت مجموعی جمہوری اقدار کو آگے بڑھایا“ ۔
اپنی تحریروں سے معاشرے کے ناسوروں کی جراحی کرنے والے سعادت حسن منٹو نے ایک جگہ لکھا تھا ”میری تحریریں آپ کو کڑوی اور کسیلی تو لگتی ہوں گی مگر جو مٹھاس آج آپ کو پیش کی جا رہی ہے اس سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے۔ نیم کے پتے کڑوے سہی مگر خون تو صاف کرتے ہیں۔“
معاشرے کی بد صورتیوں، ظاہر پرستی اور سماجی منافرت کو اپنی تحریروں کے موضوعات بنانے والے اردو کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو اردو ادب کے ایک عہد ساز افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متنازعہ مصنف بھی رہے جنہیں اپنی بعض تحریروں پر نصف درجن کے قریب مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا اور جس کا احوال انھوں نے ایک جگہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں ”مجھے آپ افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں اور عدالتیں ایک فحش نگار کی حیثیت سے، حکومت مجھے کمیونسٹ کہتی ہے اور کبھی ملک کا بہت بڑا ادیب، کبھی میری روزی کے دروازے بند کیے جاتے ہیں کبھی کھولے جاتے ہیں۔“
اردو دنیا کے اہم تنقید نگار افسانہ نگاروں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ انہیں مجرد خیالوں کو مختلف کرداروں اور واقعات کی مدد سے زندہ اور شاداب کرنا ہے، اور قابل یقین بنانا ہے۔ وہ پر امید ہیں کہ آزادی کے بعد اردو افسانے میں عمرانی شعور پیدا ہوا ہے۔ منٹو کے یہاں ضرورت سے زیادہ جنس کو اہمیت دینے کے رجحان اور مریض کرداروں سے اس کے لگاؤ سے اختلاف کے باوجود تحریر کیا گیا: ”اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو کو نثر لکھنے کا سلیقہ آتا ہے اور اس کے افسانوں میں شعری آراستگی کے بجائے نثر کی اپنی خوبصورتی، خارجیت، سادگی، واقعات کے پیچ و خم اور کردار نگاری کے تیکھے پن سے تاثر پیدا کرنے کا فن ملتا ہے۔
اس لحاظ سے منٹو سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ منٹو نے اس دور میں ایک کہانی لکھی موذیل جو یقیناً منٹو کے فن میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک آوارہ یہودن کی داستان ہے جو مسلمانوں کے محلے میں گھری ہوئی ایک سکھ لڑکی کو اپنی جان دے کر بچا لیتی ہے۔ موذیل کے کردار کے بھرپور، تیکھے اور نمائندہ ہونے کے علاوہ منٹو یہاں موذیل کی ہوہیمین آزادی پر بات ختم نہیں کرتا۔ وہ اس کے دل میں انسان دوستی کے ایک مثبت اور حقیقی جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے دل میں انسانیت دوستی کی وہ شمع روشن ہے جو انسان کو انسان سے ملاتی ہے۔“
سعادت حسن منٹو کی قبر کے کتبے پر یہ تحریر درج ہے کہ ”یہ منٹو کی قبر کی قبر ہے جو اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں تھا۔“
معاشرہ کا حقیقی چہرہ دکھانا ایک لکھاری کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ معاشرہ میں ہونے والی برائیوں کو مثبت انداز میں اجاگر کرنا، ان کا حل بتانا ایک لکھاری کی ذمہ داری ہے۔ درد دل رکھنے والا انسان کبھی بھی معاشرہ میں برائیوں پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ اس کی کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنے حصہ کی شمع جلائے بجائے شکوہ شب ظلم سے۔ ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرے تاکہ معاشرہ امن کا گہوارہ ہو نہ کہ انتشار و افراتفری کا سبب بنے۔
